Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دبئی میں وفات پانے والے ایف آئی اے کو مطلوب مقصود ’چپڑاسی‘ کون تھے؟ 

شہزاد اکبر نے الزام عائد کیا تھا کہ ’ملک مقصود نے شریف خاندان کے لیے رقوم ادھر ادھر کرنے کے لیے اپنے بینک اکاونٹس کو استعمال کیا‘ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو مطلوب ایک ملزم ملک مقصود دبئی میں وفات پا گئے ہیں۔ اس کی تصدیق نہ صرف ایف آئی اے کے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے کی ہے بلکہ دبئی حکام کی جانب سے جاری ڈیتھ سرٹیفیکیٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ملک مقصود کی وفات سات جون کو ہوئی۔ ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کے مطابق یہ موت طبعی تھی۔ 
ملک مقصود نامی یہ پاکستانی شہری کون تھے اور ان کا نام پاکستان کی جاری سیاسی کشمکش میں اتنا اہم کیوں تھا؟ اردو نیوز نے اس بابت کچھ بنیادی حقائق کا سراغ لگایا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ملک مقصود اصل میں تھے کون۔
ملک مقصود کا نام پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب 2018 میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خاندان سے متعلق کرپشن کے الزامات پر تحقیقات کا آغاز کیا۔
اس وقت ملک مقصود کا نام میڈیا کی زینت تو زیادہ نہیں بنا تاہم نیب کی تحقیقات میں وہ اس حیثیت میں سامنے آئے کہ ان کے نام بنک اکاونٹس میں بھاری رقوم کا تبادلہ ہوتا رہا۔ 
سنہ 2021 میں جب ایف آئی اے نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف بینکنگ جرائم کا مقدمہ بنایا تو اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے  مقدمہ درج ہونے کے بعد ایک طویل پریس کانفرنس کی اور الزام عائد کیا ’ملک  مقصود نے جو کہ اصل میں رمضان شوگر ملز میں چپڑاسی کے عہدے پر تھے، شریف خاندان کے لیے رقوم ادھر ادھر کرنے کے لیے اپنے نام اور بنک اکاونٹس کو استعمال کیا۔‘

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اس مقدمے میں تواتر سے عدالت میں پیش بھی ہو رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ایف آئی اے اس کیس کی تحقیقات مکمل کر چکا ہے اور چالان بھی عدالت میں پیش ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اس مقدمے میں تواتر سے عدالت میں پیش بھی ہو رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم کے دوسرے بیٹے سلمان شہباز سمیت دیگر شریک ملزمان جن میں ملک مقصود بھی شامل ہیں، کو عدالت نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے کیونکہ وہ نہ تو تفتیش میں شریک ہوئے اور نہ ان کا ٹرائل شروع ہو سکا۔ 
ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں داخل کیے جانے والے چالان کے مطابق ملک مقصود نے 1992 میں چوہدری شوگر ملز میں بطور چپڑاسی ملازمت اختیار کی۔ ان کے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی ) ریکارڈ کے مطابق بھی ان کا عہدہ چپڑاسی کا تھا۔ 
چوہدری شوگر ملز کے بند ہونے کے بعد انہوں نے رمضان شوگر ملز میں ملازمت اختیار کی، تاہم ای او بی آئی ریکارڈ کے مطابق ان کا عہدہ چپڑاسی کا ہی رہا۔ 
ایس ای سی پی میں ان کے نام کی ایک کمپنی مقصود اینڈ کو کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ ایف آئی اے کے چالان کے مطابق اسی کمپنی کے اکاؤنٹ سے انہوں نے تین ارب 40 کروڑ روپے کا لین دین کیا۔ جبکہ 2018 میں رمضان شوگر ملز سے ان کی آخری تنخواہ جو جاری ہوئی وہ 21 ہزار روپے تھی۔ 
ملک مقصود کے شناختی کارڈ کے مطابق وہ لاہور کے علاقے ماڈل کالونی کے رہائشی تھے۔ ان کی رہائش گاہ اب کوئی اور خاندان رہائش پذیر ہے۔ ملک مقصود کا کوئی رشتے دار بھی ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ 
سنہ 2018 میں وہ دبئی روانہ ہو گئے تھے اور اپنی وفات تک وہیں پر رہائش پذیر تھے۔ 

وزیراعظم کے دوسرے بیٹے سلمان شہباز سمیت دیگر شریک ملزمان کو عدالت نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے خلاف مقدمے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے اردو نیوز کو بتایا ’ملک مقصود پر ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ ان کے اکاؤنٹ میں اتنے بڑے پیمانے پر رقم کیوں آتی رہی اور وہ آگے کیوں بھیجتے رہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ رقم غیر قانونی تھی؟ تو فاروق باجوہ کا کہنا تھا ’رقم کی پوری منی ٹریل موجود ہے کیونکہ یہ بنک کے ذریعے ٹرانسفر ہوئی تھی اور ساری رقوم کا ملک کے اندر ہی لین دین ہوا۔ ہمارا مقدمہ ہے کہ جب ان کی تنخواہ صرف 21 ہزار ہے تو وہ اربوں روپے کے لین دین کے لیے اپنے اکاؤنٹس کیوں استعمال کرواتے رہے۔‘
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر سے جب پوچھا گیا کہ کیا کوئی ٹرانزیکشن شریف خاندان سے براہ راست ان کے اکاونٹ میں ہوئی؟ تو فاروق باجوہ کا کہنا تھا ’ہمارے چالان میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ براہ راست کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہے البتہ وہ شریف فیملی کی مل کے ملازم ضرور تھے۔ ان کا خاندان اور دیگر کوئی رشتہ دار بھی کبھی سامنے نہیں آیا نہ وہ ایف آئی اے کی تفتیش میں شامل ہوئے۔‘

شیئر: