خاتون کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے خیبرمیڈیکل کالج منتقل کردیا گیا (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادی کیلاش سے تعلق رکھنے والی رینہ بی بی نامی خاتون کو پیر کی رات زخمی حالت میں پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج چل بسیں۔
ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال محمد عاصم کے مطابق ’رینہ بی بی کو پیر کی رات تشویشناک حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔‘
’رینہ بی بی کے پیٹ میں گولی لگی تھی۔ آپریشن تھیٹر سےانتہائی نگہداشت یونٹ منتقل کرنے سے پہلے وہ چل بسی۔‘
کیلاشی خاتون کے شوہر سیف اللہ کا تعلق پشاور کے ہزار خوانی علاقے سے ہے۔ شوہر نے رحمان بابا پولیس سٹیشن میں دفعہ 325 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی جس میں انہوں نے موقف اپنایا کہ رینہ بی بی نے اپنے بچوں سے لڑائی کے بعد پستول سے خود کو گولی مار دی۔
ایف آئی آر کے مطابق واقعے کے چشم دید گواہ دیگر اہل خانہ بھی ہیں۔
پشاور صدر سرکل کے ایس پی عتیق حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میڈیکولیگل رپورٹ کی بنیاد پر خودکشی کی ایف آئی آر تو درج کرلی گئی ہے تاہم معاملے کی تفتیش جاری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوسٹ مارٹم کا انتظار کررہے ہیں جس کے بعد ہی حتمی طور کچھ کہا جاسکتا ہے۔‘
’لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے خیبر میڈیکل کالج منتقل کردیا گیا ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور اور کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے پہلے رکن اسمبلی وزیر زادہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’واقعے کی تحقیقات کے لیے پولیس حکام سے بات ہوئی ہے، بہت جلد حقیقت سامنے آجائے گی۔‘
سوشل ورکر لوک رحمت کے مطابق رینہ بی بی کے قبول اسلام پر وادی کیلاش میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی تھی (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
وادی کیلاش سے تعلق رکھنے والے سوشل ورکر لوک رحمت نے اردو نیوز کو بتایا کہ رینہ بی بی کا تعلق بمبوریت گاؤں سے تھا۔ ’یہ خاتون 2016 میں اپنی مرضی سے کیلاشی مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوئی تھیں۔‘
لوک رحمت کے مطابق ان کے قبول اسلام پر وادی کیلاش میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق ’رینہ نے بعد میں سیف اللہ نامی نوجوان سے شادی کرلی اور پشاور منتقل ہوگئیں۔‘
لوک رحمت نے مزید بتایا کہ ’سیف اللہ اور رینہ بی بی کے دو بچے ہیں۔ ان کے شوہر نے دوسری شادی بھی کررکھی تھی۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ رینہ اور ان کے شوہر کے درمیان ناراضی چل رہی تھی اس لیے رینہ بی بی اپنے گھر واپس آگئی تھیں۔ ’مگر دو سال قبل جرگے کے ذریعے صلح صفائی ہوئی اور رینہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس پشاور چلی گئیں۔‘
رینہ کے والد غلام محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ بیٹی کی موت کا سن کر وہ پشاور روانہ ہوچکے ہیں۔ ’مجھے نہیں معلوم کیا واقعہ پیش آیا لیکن میری بیٹی بہادر لڑکی تھی وہ خود کو نہیں مار سکتی۔‘
دوسری جانب تحریک تحفظ حقوق چترال نامی تنظیم نے اس واقعے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
تظیم کے ایک عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بظاہر یہ خودکشی نہیں قتل لگ رہا ہے۔‘