موسمیاتی آفات، ’پاکستان سمیت دنیا بھر میں 22 کروڑ بچے تعلیم سے محروم‘
موسمیاتی آفات، ’پاکستان سمیت دنیا بھر میں 22 کروڑ بچے تعلیم سے محروم‘
اتوار 18 ستمبر 2022 5:50
یاسمین شریف کا کہنا ہے کہ بہت سے بچے معیاری تعلیم تک اپنی رسائی کھو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان سے لے کر یوکرین، وینزویلا اور سب صحارا افریقہ کے وسیع علاقوں تک، موسمیاتی آفات اور بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ سکول جانے والے بچے متاثر ہوئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق موسمیاتی آفات کی وجہ سے بہت سے بچے اب سکول جانے سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی فنڈ ’ایجوکیشن کانٹ ویٹ‘ جو بحران زدہ علاقوں میں تعلیم پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، کی سربراہ یاسمین شریف کا کہنا ہے کہ ’یہ خوفناک ہے، اور اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔‘
انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ ’انہوں نے سب کچھ کھو دیا ہے اور وہ معیاری تعلیم تک اپنی رسائی کھو چکے ہیں۔‘
یاسمین شریف نے سالانہ جنرل اسمبلی کے سمٹ سے ایک دن قبل پیر کو ہونے والے تعلیمی بحران پر اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس سے پہلے اے ایف پی سے بات کی۔
اقوام متحدہ کے فنڈ کا تخمینہ ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی آفات کی وجہ سے 22 کروڑ بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں تقریباً آٹھ کروڑ ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی سکول میں قدم نہیں رکھا۔
’ایجوکیشن کانٹ ویٹ‘ نے 2016 سے سکولوں کی تعمیر اور تعلیمی مواد خریدنے کے ساتھ ساتھ روزانہ کھانا فراہم کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ اکٹھا کیا ہے۔ اس فنڈ سے 32 ممالک میں تقریباً 70 لاکھ بچوں کی امداد ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے بعد یاسمین شریف فروری میں جنیوا میں ایک کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہیں جہاں فنڈ مزید دو کروڑ بچوں کی امداد کے ہدف کے ساتھ مزید ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کا مطالبہ کرے گا۔
یاسمین شریف نے بتایا کہ ’کچھ مغربی ممالک بچے کی تعلیم پر سالانہ 10 ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں جبکہ بحران زدہ علاقوں میں ہر بچے کو 150 ڈالر ملتے ہیں، تو آپ اس فرق کا اندازہ کر سکتے ہیں۔‘
ان کے بقول ’تنازعات کا شکار کچھ علاقوں میں سکولوں کو تباہ کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر بین الاقوامی قانون کے برخلاف ہتھیاروں کے ڈپو میں تبدیل ہو گئے ہیں۔‘
یاسمین شریف نے کہا کہ تعلیم کی کمی کے حقیقی اور فوری نتائج ہوتے ہیں۔ ’بعض اوقات بچے سڑکوں پر آ جاتے ہیں جنہیں تشدد، انسانی سمگلنگ، مسلح گروہوں کی طرف سے بھرتی یا لڑکیوں کو جبری شادی کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
’ایجوکیشن کانٹ ویٹ‘ کی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ’انہوں نے اپنے گائوں کو جلتے دیکھا ہے، اپنے والدین کو قتل ہوتے دیکھا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے لیے صرف ایک چیز رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں تعلیم حاصل کر سکتا ہوں، تو میں اس سے اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکتا ہوں۔‘