مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج میں شدت، ایران میں حکمران تذبذب کا شکار
مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج میں شدت، ایران میں حکمران تذبذب کا شکار
ہفتہ 1 اکتوبر 2022 7:54
مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے حکمران اس بات پر تذبذب کا شکار ہیں کہ کیسے حکومت مخالف مظاہروں کو کچلا جائے۔
عرب نیوز کے مطابق 22 برس کی مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب 83 برس کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی کی خراب صحت کے بارے میں نئی افواہیں ہیں۔
اس صورتحال نے ایران کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی خطرہ پیدا کر دیا ہے۔
اگرچہ 86 رکنی اسمبلی کے ماہرین نئے لیڈر کو منتخب کریں گے تاہم اقتدار کے حصول کے لیے کوشش شروع ہو چکی ہے۔
ایک سخت گیر عہدیدار نے بتایا کہ ’اقتدار کی دوڑ نے قیادت کے اندر تذبذب پیدا کر دیا ہے۔ ملک جس افراتفری سے دوچار ہے اس میں ہم نہیں چاہیں گے کہ آپس کے تنازعات بڑھے۔ اس وقت سے بڑا مسئلہ اسلامی جمہوریہ کی بقا کا ہے۔‘
سپریم لیڈر آیت خامنہ ای کی جگہ لینے کے لیے جن دو امیدواروں کو پسندیدہ قرار دیا جا رہا ہے وہ ان کے بیٹے مجتبیٰ اور صدر ابراہیم رئیسی ہیں۔
کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینیئر رکن کریم سجاد پور نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کو عوامی سطح پر حمایت حاصل نہیں۔
’لیکن اسلامی جمہوریہ کو جو چیز اقتدار میں رکھتی ہے وہ عوام کی حمایت نہیں بلکہ طاقت کے ذریعے دبانا ہے۔ یہ دونوں رہنما دبانے کا گہرا تجربہ رکھتے ہیں۔‘
ملک بھر میں احتجاج 80 شہروں تک پھیل گیا ہے۔ ایران کی حکومت نے ’انتشار پسندوں، دہشت گردوں اور غیرملکی مخالفین‘ کے اتحاد پر احتجاج کو منظم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جس پر بہت کم ایرانی یقین رکھتے ہیں۔
عوامی غم و غصے سے خوفزدہ ہو کر کچھ سینیئر علما اور سیاستدانوں نے خونریزی سے بچنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
تاہم کریک ڈاؤن میں 75 مظاہرین کی ہلاکت کے باوجود سخت گیر رہنما سخت اقدامات اٹھانے سے باز نہیں رہے۔
ایک سابق ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کو خدشہ ہے کہ اس دفعہ زیادہ خطرناک طاقت کا استعمال اسلامی جمہوریہ کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔‘