Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوال کا جواب

اپنے وطن سے ہر کسی کو محبت ہوتی ہے مگر مجھے اپنے وطن پاکستان سے ان سب سے بڑھ کر محبت ہے کیونکہ جب میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی توخود کو ”پاکستان کی گود“ میں پایا
شہزاد اعظم
اپنے وطن سے ہر کسی کو محبت ہوتی ہے مگر مجھے اپنے وطن پاکستان سے ان سب سے بڑھ کر محبت ہے کیونکہ جب میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی توخود کو ”پاکستان کی گود“ میں پایاجسے منصہ¿ شہود پر نمودار ہوئے صرف 10برس ہوئے تھے۔ اس ننھے وطن نے مجھے دھوپ سے بچنے کےلئے سائبان دیا،کھانے پینے کا سامان دیا،اپنا بنا یا،اپنائیت کا مان دیا،آزادی کا ایقان دیا۔ اس سرزمینِ پاک نے اتنی کم سنی میں ہمیں دنیا بھر میں پہچان دی، اقوام عالم میں انوکھی آن بان دی، پھر یوں ہوا کہ اس نوخیزمملکت کے خلاف سازشوں کے جال بُنے جانے لگے۔کسی نے ترقی کے نام پر نظام بدلنے کی کوشش کی، کسی نے آزادی کے نام پر وطن کے صبح و شام بدلنے کی کوشش کی۔ اسی کھینچا تانی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا۔
میرے وطن کے دو ٹکڑے کرنے کے بعد بھی عاقبت نااندیشوں کو چین نہیں آیا۔ نہ تام بدلا، نہ جھام بدلا، نہ حالات بدلے، نہ نظام بدلاالبتہ سازشوں کے مقام بدل گئے، نام بدل گئے ، چام بدل گئے، کوئی رہنما کا روپ دھار کر آیا، کوئی اُمرائے پاکستان کا خیرخواہ بن کر سامنے آیا، کوئی غربائے پاکستان کا ہمدردبن کر میدان میں کودا، کسی نے خود کو جمہوریت کا چیمپیئن ظاہر کر کے اس نابغہ¿ روزگار مملکت سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی، کسی نے نئے دور کا ”بہانہ“ بنا کر اپنی مرضی سے بساط سجائی۔میرے وطن پاکستان کے ”بدخواہوں“ کی اُمیدبر آئی ، بعض ذمہ داران بھی بے حس ہونے لگے، صاحبان اپنا وقار کھونے لگے،”ساحلوں سے دور“کمپنیوں کا قیام عمل میں آنے لگا، ملک کو لوٹا جانے لگا، ہر کوئی اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق اس ”بے زبان پاکستان“ کو کھانے لگا۔وطن عزیز کے بے اختیار ملک کی حالت پر کڑھتے رہے اور بااختیار صاحبان کے بیرون ملک اثاثے بڑھتے رہے، ان کے بچے ہارورڈ و آکسفرڈ میں پڑھتے رہے اورمحبانِ وطن کے سپوت سڑکوں اور گلیوں میں گھسٹتے رہے۔ہمارامحسن”پاکستان“بحرانوں میں ڈوبتا رہااور اس کی بے چارگی دیکھ کر میرا دل اُوبتا رہا۔ اسی دوران مجھے پاکستان کے نامی گرامی اخبار میںملازمت مل گئی۔ کئی برس وہاں خدمات انجام دیں جس کے بعداردو اخبار میں ملازمت کےلئے مملکت چلے آئے ۔یوں صحافتی ماحول میں جیتے جیتے کئی دہائیاںبیت چکی ہیں۔ ان گزرے برسوں میں مجھے جب بھی پاکستان کے کسی ”وی آئی پی، اعلیٰ عہدیدار، صاحبِ ”کردار“، باوقار، ذمہ داریا کرتا دھرتاسے ملاقات کا موقع میسرآیا تو میں نے ان سے یہی سوال کیاکہ میرے پاکستان میںعام آدمی رسوا ہے ، خوار ہے، ہر ادارے میں لوٹ مار ہے، بدعنوانی ہے، بے ایمانی ہے ،رشوت ہے ، بیروزگاری ہے، چوری ہے چکاری ہے ،لوڈ شیڈنگ ہے ، مہنگائی ہے،معاشرے میں پھیلتی بے حیائی ہے ،غریبوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ہمارے صاحبان کو عوام کے مصائب کی کوئی خبر نہیں۔ میرا یہ شکوہ سن کر ان ”بڑوں“ کا ”چھوٹا سا جواب“ ہوتا ہے کہ ”تھنک پازیٹیو“۔ یہ سن کر میرا دل کہتا تھا کہ”یُو شُڈ جِنک پازیٹیو، آئی وِل تھنک پازیٹیو“، آپ کوئی ایک قدم مثبت اٹھائیں تو سہی، میں اس کو100بار سوچوں گا۔
دن یونہی گزرتے گئے، حالات بد سے بدتر ہوتے گئے حتیٰ کہ بیرونی دنیا کے لوگوں نے تحیرآمیز استفسار کرنا شروع کر دیا کہ یہ بتلائیے کہ پاکستان میں رہنے والے ان گنت لوگ ملک کو رات دن لوٹ رہے ہیں پھربھی یہ قائم ہے ، اس کا سبب کیا ہے ؟میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھامگر 2 روز قبل مجھے دہائیوں قبل سے پوچھے جانے وا لے سوال کا جواب مل گیا۔
ہوا یوں کہ ایک پاکستانی جوڑا نومبر 2016 ءمیں عمرہ کی ادائیگی کےلئے مملکت آیا ۔چند روز کے بعدخاتون کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی، ڈاکٹروں نے معائنہ کرکے بتایا کہ خاتون ”پُر اُمید“ ہے اور اس کے ہاں قبل از وقت ولادت متوقع ہے۔ یوں 9 نومبر2016ء کوبچی کی ولادت ہوئی جسے انکیوبیٹر میں رکھا گیا۔ والدین فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ، ادھر ویزا بھی ختم ہو رہا تھاچنانچہ ممتا کواپنی نومولود بیٹی مملکت میںچھوڑ کر واپس جانا پڑا۔ باپ نے بھی سینے پر پتھر رکھ کر بیٹی سے عمر بھر کی جدائی کا صدمہ جھیلنے کا عزم کر لیا ۔ یوں ماں باپ دونوں کراچی پہنچ گئے ۔بیٹی کی محبت والدین کو رُلاتی رہی، ان کا ضمیر کچوکے لگاتا رہا، ماں کی ممتا گھٹ گھٹ کر روتی اور سسکتی رہی۔ یوں ہی کئی ماہ گزر گئے پھر یوں ہوا کہ ایک روز فون کی گھنٹی بجی۔ سعودی عرب سے کال آ رہی تھی ۔ باپ نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے آواز آئی کہ ہم سفارتخانہ¿ پاکستان سے بول رہے ہیں، آپکی بچی جسے آپ انکیوبیٹر میں چھوڑ گئے تھے، بالکل خیریت سے ہے اور مدینہ منورہ کے اسپتال میں موجود ہے ۔یہ سن کر والدین کی خوشی کی کوئی انتہاءنہ رہی، انکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور انہوں نے پاکستانی سفارتخانے کے ذمہ داران کو رو رو کر دعائیں دیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستانی قونصل جنرل شہر یار اکبر خان نے بچی کے والدین کو سعودی عرب بلوانے کےلئے وزرات خارجہ کو سفارشات ارسال کیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ویلفیئر قونصل عبدالباسط عباسی کو خصوصی ہدایات جاری کیںکہ وہ اسپتال انتظامیہ سے مسلسل رابطے میں رہیں۔ یوں پاکستانی سفارتخانے کے افسران نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے ہموطنوں کا ”مجبور والدین “سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہیں ۔
آج وہ تمام لوگ جو مجھ سے استفسار کرتے رہے ہیں کہ جب پاکستان کو ہر سمت سے کھسوٹا جا رہا ہے پھر یہ قائم و دائم کیسے ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی قونصل جنرل شہر یار اکبر خان جیسے افسران ، ویلفیئر قونصل عبدالباسط عباسی اور پریس قونصل ارشد منیر جیسے ذمہ داران موجود ہیں، ان شاءاللہ، پاکستان کو کچھ نہیں ہو سکتا۔
یہاں ہر ”ناپختہ ذہن“ میں ایک استفسار کلبلا سکتا ہے کہ جب پاکستان میں شہر یار اکبر خان جیسی باکمال ہستیاں موجود ہیں پھر ملک بحرانوں کا شکار کس لئے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس لمحے کا ہے انتظار کہ جب ایسی باکمال ہستی¿ باوقار کرسی¿ اختیار پربراجمان ہوجائے گی۔ 
آج وہ تمام ”وی وی آئی پیز“ کہ جن سے میری ملاقات ہوئی ، جن سے میں نے وطن عزیز کے حوالے سے استفسار کیا اور جنہوں نے مجھے جواباً”تھنک پازیٹیو“ کا ”انتباہی مشورہ“ دیا، اُن سب صاحبان کو میں باور کرانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی سوچ کےلئے آنکھوں دیکھی یا کانوں سنی حقیقت کا وجود ضروری ہوتا ہے۔ آج میں نے شہر یار اکبر خان، عبدالباسط عباسی اور ارشد منیر جیسی جیتی جاگتی حقیقتوں کی مثالی خدمات دیکھیں اور سنیں توببانگِ دُہل دلی جذبات و خیالات کو قرطاس پر بکھیر دیا۔ یہاں یہ حقیقت بھی گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ”اِف آئی وِل سی پازیٹیو، آئی ول بی پازیٹیو....اِف یو وِل جِنک پازیٹیو، آئی وِل تھنک پازیٹیو۔“
******

شیئر: