فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیلی پالیسیوں سے سنگین چیلنجز کا سامنا
فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیلی پالیسیوں سے سنگین چیلنجز کا سامنا
پیر 2 جنوری 2023 17:43
یہ چیلنجز فلسطینی اتھارٹی کی ادائیگیوں کی صلاحیت کمزور کر دیں گے۔ فوٹو عرب نیوز
فلسطینی حکام اور ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو اس وقت سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اسرائیل کی نئی حکومت آنے سے زیادہ تشویشناک حالات کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اسرائیلی وزراء میں انتہائی دائیں بازو کے رہنما شامل ہیں جن کی پالیسیاں فلسطینیوں کے حقوق سے انکاری ہیں۔
فلسطین اتھارٹی 1994 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدے پر دستخط کے بعد قائم کی گئی تھی تاہم اسرائیل کی نئی پالیسیاں فلسطین اتھارٹی کو کمزور کریں گی۔
فلسطین اتھارٹی کو اس معاہدے کے تحت مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں رہنے والےتقریباً 50 لاکھ فلسطینیوں اور مشرقی بیت المقدس کی اطراف رہنے والے ساڑھے تین لاکھ فلسطینیوں کے لیے محدود سول سروسز کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
فلسطینی اتھارٹی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ صدرمحمود عباس جو اب 87 سال کے ہیں ان سمیت اتھارٹی کی کمزور قیادت نے فلسطینی عوام کی مدد کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔
عہدیدار نے مزید بتایا کہ اس وقت کوئی نہیں جانتا کہ فلسطینی پارلیمنٹ یا انتخابات نہ ہونے کے باعث موجودہ صورت حال سے قانونی، آئینی اور سیاسی طور پر کیسے نمٹا جائے۔
سیاسی تجزیہ کار اور فلسطین کے سابق وزیر غسان خطیب کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے نومنتخب وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، ایتمار بن گویر اور بیزلل سموٹریچ اسرائیل کی جانب سے جمع کردہ فلسطینی ٹیکس کی رقم میں کٹوتی کر سکتے ہیں۔
اس طرح کے اقدامات فلسطینی اتھارٹی کی ادائیگیوں کی صلاحیت کمزور کر دیں گےاور اتھارٹی کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے ذمہ داریاں ادا کرنے اور سول و دیگر فورسز کے ایک لاکھ 70ہزار ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 80 فیصد ادائیگی میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔
غسان خطیب نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے یہ کمزوری اور مقامی طور پر مالی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکامی مغربی کنارے میں سیکیورٹی خدشات میں اضافہ کا سبب بنے گی۔
مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، الاقصیٰ میں دراندازی اورآبادکاروں کے لیے بستیوں کی تعمیر میں اضافہ فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کرنے کا ایک اور عنصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب میرے خیال میں موجودہ صورتحال میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران فلسطینی اتھارٹی کا کردار تماشائی سے زیادہ نہیں ہوتا اور سیکورٹی سروسز بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
سابق وزیر منصوبہ بندی و محنت غسان خطیب نے مزید کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دو برس کے دوران فلسطینی اتھارٹی کی طاقت اور اثر و رسوخ بہت کم ہو گیا ہے،اس وقت ترقیاتی منصوبے، نئے انفراسٹرکچریا پختہ سڑکوں کی اصلاح و مرمت سے قاصر ہے جس سے فلسطینی عوام میں اس کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔
دریں اثناء اتھارٹی کےچند عہدیداروں کا خیال ہے کہ ان حالات میں اسرائیل، امریکہ یایورپی یونین کے مفاد میں نہیں کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے خاتمے کی اجازت دے کیونکہ اس کا متبادل سیکیورٹی افراتفری کی صورتحال پیدا کر دے گا جس سے اسرائیل کو نقصان ہو سکتا ہے۔
دریں اثناء اسرائیل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے بعد فلسطینیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے کہا گیا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے قانونی معاملے پر فیصلہ دیا جائے۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کے خلاف پابندیوں کی فہرست تیار کر رہا ہے جس میں فلسطینی حکام سے 70 وی آئی پی پرمٹ واپس لینا بھی شامل ہے۔