Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے باوجود انتخابات میں تاخیر ممکن ہے؟

ماہرین کے مطابق اگر کوئی ٹھان لے کہ انتخابات نہیں کرانی تو پھر اس کے کئی طریقے نکالے جا سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی پرویز الہی نے گورنر کو اسمبلی کی تحلیل کے لیے ایڈوائس بھیج دی ہے۔
امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف اپنے اعلان کے مطابق پنجاب اسمبلی کے فورا بعد خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کر دے گی۔ اور دیگر صوبائی اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے اراکین مستعفی ہو جائیں گے۔
صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد آئینی طور پر 90 روز کے اندر  نئے انتخابات کا انعقاد لازمی ہے۔ لیکن وفاق میں حکمران اتحاد پی ٹی ایم کی جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ اکتوبر 2023 میں ہوں۔ اسی وجہ سے ان کی کوشش تھی کہ پنجاب میں وہ اعتماد کے ووٹ یا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے لیکن خدشہ یا سوال جو سر اٹھا رہا ہے وہ یہی ہے کہ کیا وفاقی حکومت یا الیکشن کمیشن دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کر سکتے ہیں؟ ایسی صورت میں حکومت اور الیکشن کمیشن کے پاس کیا اختیارات ہیں اور ان کے پاس کون سے آئینی طریقے موجود ہیں؟؟
آئینی ماہرین کے سمجھتے ہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے کئی طریقے نکالے جا سکتے ہیں۔
حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے قانونی ماہر سینیٹر کامران مرتضی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہ یہ بات درست ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد انتخابات تو کرانا ہی ہوں گے۔ لیکن آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں انتخابات ملتوی کرنا یا انہیں التوا میں رکھنا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
’جب کوئی یہ ٹھان لے کہ انتخابات نہیں کرانی تو پھر اس کے کئی طریقے نکالے جا سکتے ہیں۔‘

کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ حکومت کو دستوری راستہ اپناتے ہوئے الیکشن کرانا چاہیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ لیکن ایسا کرنا نہیں چاہیے اگر تحریک انصاف اور ان کی اتحادی ق لیگ نے دستوری طریقہ اختیار کیا ہے تو پھر حکومت بھی دستوری طریقہ اختیار کرتے ہوئے انتخابات کرا دے۔ اس سے کوئی بہت بڑی قیامت نہیں آجائے گی۔
ماضی قریب میں یہ تھیوری بھی ڈسکس ہوتی رہی ہے کہ کہ ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرکے موجودہ حکومت کی مدت میں ایک سال کی توسیع کر دی جائے۔ آئینی ماہرین کے مطابق غیرمعمولی حالات کی وجہ سے ہنگامی حالت نافذ کی جا سکتی ہے۔
ایڈوکیٹ حسن رشید نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اگر انتخابات نہ کرانے ہو تو اس کے بہت سے آپشنز موجود ہیں۔ ’حکومت مشکل معاشی صورتحال کو بنیاد بنا کر ہنگامی حالت نافذ کر دے بے شک وہ نگران حکومت کے کے دوران ہی کیوں نہ ہو تو انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس یہ جواز تو موجود ہے کہ ملکی معاشی صورتحال اس قابل نہیں کہ وہ انتخابات کا خرچہ برداشت کر سکے۔ ’حکومت کہہ سکتی ہے کہ عمران خان نے پہلے بھی آٹھ حلقوں سے الیکشن لڑا لیکن اسمبلی نہیں گئے۔ تحریک انصاف کے دیگر ارکان بھی اسمبلیوں کا رخ نہیں کر رہے ہیں۔ جب بھی معاشی صورتحال میں بہتری آنے لگتی ہے اور کہیں سے پیسہ آنے لگتا ہے تو تحریک انصاف ملک میں انتشار پیدا کر دیتی ہے جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے۔
اس لیے جب تک ملک کی صورتحال معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوجاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت چاہے تو اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے ہی گورنر راج کا نفاذ کر دے تو معاملہ اللہ دوسری طرف چلا جائے گا۔
’زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا کہ کیس عدالتوں میں جائے گا۔ اس کا فیصلہ آنے تک اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو سکے گی۔ اسمبلی بھی تحلیل ہونے سے بچ جائے گی۔ جب فیصلہ آئے گا تب تک ہوسکتا ہے حالات بدل چکے ہوں اور اسمبلی تحلیل ہی نہ ہو۔ انتخابات میں تاخیر کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ‘

افتخار اللہ بابر کا کہنا ہے کہ لگ رہا ہے کہ اب حکومت مزید تاخیر نہیں کرے گی اور عام انتخابات کی طرف ہی جائے گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پاکستان کے آئین کو کو مقدم رکھنے اور پارلیمانی روایات کو سمجھنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ کہ انتخابات سے فرار  کوئی بہتر طریقہ نہیں ہوگا۔
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے سابق سیکرٹری افتخار اللہ بابر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ دو اسمبلیاں تحلیل ہونے، قومی اسمبلی سے 130 سے زائد ارکان کے مستعفی ہونے اور دیگر صوبائی اسمبلیوں سے بھی ایک جماعت کے ارکان کے استعفے کے بعد عام انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔
’اس صورتحال میں انتخابات میں تاخیر کی کوشش ملک کو مزید انتشار کا شکار کرے گی۔ بہتر یہی ہے کہ انتخابات کی طرف جایا جائے تاکہ جون سے پہلے پہلے نئی حکومت موجود ہو اور وہ بجٹ پیش کرے۔‘
انھوں نے کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ اب حکومت مزید تاخیر نہیں کرے گی اور عام انتخابات کی طرف ہی جائے گی۔ اور یہی بہترین حل ہے۔

شیئر: