ایران کا مظاہروں میں ہزاروں افراد کو حراست میں لینے کا اعتراف
حکم نامے میں ہزاروں افراد کے لیے عام معافی یا قید کی سزاؤں میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں کارکنوں نے سپریم لیڈر کے اُس حکم نامے کو مسترد کر دیا ہے جس میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران حراست میں لیے گئے ہزاروں افراد کے لیے عام معافی یا قید کی سزاؤں میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا یہ حکم نامہ بڑے پیمانے پر مظاہروں میں ہزاروں افراد کو حراست میں لینے کا اعتراف ہے۔
اوسلو میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس کے محمود امیری مغدام نے کہا کہ ’آیت اللہ علی خامنہ ای کی منافقانہ معافی سے کچھ نہیں بدلے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نہ صرف تمام مظاہرین کو غیر مشروط رہا کیا جانا چاہیے بلکہ یہ عوامی حق بھی ہے کہ خونی جبر کا حکم دینے والوں اور ان کے ایجنٹوں کا احتساب کیا جائے۔‘
خامنہ ای کا یہ فرمان طویل عرصے سے نظربند اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی کے نیا آئین لکھنے کے بارے میں ملک گیر ریفرنڈم کے مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے۔
سرکاری میڈیا نے اس حکم کے حوالے سے انتباہی فہرست جاری کی ہے جو بیرون ملک تعلقات رکھنے والوں یا جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کو نااہل قرار دے گا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے فارسی زبان میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ خامنہ ای نے ’معافی کی پیشکش کرنے اور حالیہ واقعات میں ہزاروں ملزمان اور مجرموں کی سزاؤں کو کم کرنے پر اتفاق کیا۔‘
ارنا کی انگریزی زبان کی سروس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معافی اور کم کی گئی سزائیں ’ایران میں حالیہ فسادات کے گرفتار افراد سمیت ہزاروں مجرموں کے لیے ہیں۔‘ حکام نے فوری طور پر رپورٹس میں تضاد کو تسلیم نہیں کیا۔
حکم نامے کے حوالے سے رپورٹس میں خامنہ ای کے فیصلے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی جو ایران میں ریاست کے تمام معاملات پر حتمی رائے رکھتے ہیں۔
میر حسین موسوی نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ’ایران کا موجودہ نظام، جو ایک سپریم لیڈر کو حتمی رائے دیتا ہے، مزید نہیں چل سکتا۔‘
انہوں نے نیا آئین لکھنے کے لیے ’حقیقی نمائندوں‘ کی آئینی اسمبلی کی تشکیل پر بھی زور دیا۔
اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ایران کی تھیوکریسی 80 سالہ سیاست دان کی پکار پر کان دھرے گی۔
وہ اور ان کی اہلیہ برسوں سے نظر بند ہیں جب سے 2009 میں ان کے متنازع صدارتی انتخابات میں ہارنے کے بعد گرین موومنٹ کے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔