Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچے باہر بھی غیر محفوظ اور اندر بھی !

1400 کے لگ بھگ بچے جیلوں میں قید ہیں مگر90 فیصد پر جرم ثابت ہونا باقی ہے
- - - - - - - - - -
وسعت اللہ خان  - لاہور
- - - - - - - - -
سے ذرا فاصلے پر واقعہ قصور میں بچوں سے طویل عرصے تک زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنا کر پھیلانے اور ان کے اہل خانہ کو بلیک میل کرکے پیسے اینٹھنے کے بارے میں مقدمہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے زیر سماعت ہے۔فیصلہ تو جانے کب آئے لیکن اس دوران ملزموں کی تعداد 25سے کم ہو کر 8 رہ گئی ہے۔
ایک اور سنگین مسئلہ جس کی جانب میڈیا کی توجہ کم ہی جاتی ہے وہ ہے جیلوں میں بند نو عمر ملزموں کو درپیش جسمانی و نفسیاتی خطرات۔ مثلاً پورے خیبر پختونخوا میں اس وقت 340نو عمر قیدی ہیں۔ان میں سے 27 مجرم قرار پائے ہیں باقی فیصلے کے منتظر ہیں مگر جب صوبائی مشیرجیل خانہ جات سے پوچھا گیا کہ اس وقت صوبے میں کتنے بچے جیلوں میں ہیں تو ان کا جواب تھا ’’ مجھے درست تعداد تو نہیں معلوم یہی کوئی چار پانچ سو تو ہوں گے ’’۔ خیبر پختونخوا میں بھی ملک کی بیشتر جیلوں کی طرح کمسن قیدی بظاہر بڑے قیدیوں سے علیحدہ بیرکوں میں رکھے جاتے ہیں جنہیں جیل کی زبان میں بچہ خانہ کہا جاتا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کی سابق صوبائی حکومت نے 2012ء میں قیدی بچوں کی رہائش و سہولیات سے متعلق قانون اسمبلی سے منظور کروایا۔بنوں میں ایک بورسٹل جیل تعمیر ہوئی ، ہری پور میں بھی اس مقصد کے لئے عمارت تعمیر ہوئی مگر تاحال دونوں مراکز آپریشنل نہیں ہوسکے۔اس وقت پاکستان میں 90 کے لگ بھگ جیلیں ہیں لیکن بچوں کے لئے خصوصی جیلوں کی تعداد 6 ہے۔یعنی 2سندھ میں اور4 پنجاب میں۔7 سے 18 برس کے تقریباً 80ہزار نو عمروں پر مختلف الزامات میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ان میں سے 1400 کے لگ بھگ بچے جیلوں میں قید ہیں مگر 90فیصد پر جرم ثابت ہونا باقی ہے۔
جیلوں میں دو طرح کے بچے نظربند ہیں۔ایک وہ جن کی مائیں قیدی ہیں اور وہ کم سنی کے سبب ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں دیگر وہ جو کسی نہ کسی الزام میں جیل بھیجے گئے۔18 برس سے کم عمر کی کچھ بچیاں بھی جیل میں ہیں لیکن ان کے لئے لڑکوں کے برعکس علیحدہ سہولتیں نہیں بلکہ وہ بڑی عمر کی قیدی عورتوں کی بیرکس میں ہی رکھی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جووئنائل جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000ء سے نافذ ہے۔اس قانون کے تحت 18 برس سے کم عمر کے ملزم کی گرفتاری کے بعد ملزم کے ورثاء کو بتانا ضروری ہے۔ملزم کو گرفتاری کے 24گھنٹے کے اندر اندر جووئنائل عدالت یا مجاز مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت جووئنائل عدالتیں کتنی ہیں ؟ ( یہ فقیر اس بارے میں طالب مدد ہے )۔جوونائل آرڈیننس کے تحت نو عمر قیدیوں کو بالغ قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔ ترجیحاتی طور پر انہیں بچہ جیل یا مرکز اصلاح میں رکھا جانا چاہئے مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ جن علیحدہ بیرکوں میں نو عمروں کو رکھا جاتا ہے وہاں کھیل کود اور تعلیمی سہولتیں ندارد ( سوائے گنتی کی چند جیلوں کے )۔ ان پر جسمانی و ذہنی تشدد نہیں کیا جاسکتا نہ ہی مقدمے کا فیصلہ ہونے تک مشقت لی جاسکتی ہے ( مگر یہ سب ہوتا ہے )۔ پاکستان جیسے ممالک میں جیل ایک علیحدہ ریاست ہے۔اس کا بادشاہ داروغہ اور کابینہ مددگار عملہ ہے۔ بطور آئین انگریزی دور کا جیل مینوئل اور اس میں آزادی کے بعد کی گئی ترامیم بھی موجود ہیں لیکن عملی قانون ’’ اوپر آسمان نیچے جیلر ’’ کے اصول پر نافذ ہے ( اس موضوع پر درجنوں فلمیں بن چکی ہیں )۔ اگر آپ مفلوک الحال بھی ہیں اور بدقسمتی سے جرم بھی کر بیٹھے ہیں تو پھر آپ کا اللہ حافظ ہے۔اگر آپ خوشحال اور طاقتور ہیں تو پھر جیل بھی ریل ہے بلکہ ریل پیل ہے۔آپ اپنا دربار سجا سکتے ہیں۔جیل کا عملہ آپ کا دربان ہوگا۔نوٹوں کی کیاری کو ہر کوئی پانی دیتا ہے۔
جی چاہے تو ڈائٹنگ کیجئے نہ چاہے تو بہترین کھانا منگوائیے خود بھی کھائیے درباریوں اور نادار قیدیوں کو بھی بانٹئے اور ظالم و مظلوم کی دعائیں لیجئے۔ ایک وقت میں ایک ملاقات کی پابندی تو کنگلے مجرموں کے لئے ہے۔آپ کے ملاقاتی کون گن رہا ہے۔دل چاہے تو اپنی بیرک میں کرسیاں ڈلوا لیں ، جی چاہے تو جیلر کے کمرے میں چائے بسکٹ کے اوپر مل لیں۔موبائل فون حاضر! چرس اور شراب حاضر ! کیا بات ہو رہی تھی اور کہاں نکل گیا۔پنجاب کے ایک سابق آئی جی جیل خانہ جات پرویز راجپوت کہتے ہیں کہ قیدی بچوں پر تشدد اور زیادتی کے واقعات ہر جیل میں ہوتے ہیں مگر اکثر جیلوں کا نظام ’’ نہ بتاؤ نہ پوچھو ’’ کے اصول پر چلتا ہے۔بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق ایک تنظیم سپارک کے سربراہ انیس جیلانی کے بقول جیل ایک بند جگہ ہوتی ہے لہذا وہاں ایسے واقعات کی آزادانہ تحقیق بہت مشکل ہے جو بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ جیل عملے کی چھلنی سے گزرتی ہیں۔
شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی خبر چھلنی سے گر پڑے اور آپ کے علم میں آجائے۔پشاور جیل سے آنے والی خبر بھی کچھ ایسی ہی ہے۔انیس جیلانی بتاتے ہیں کہ چند برس قبل حیدرآباد ڈسٹرکٹ جیل میں نئے نئے تعینات ہونے والے ایک جیلر نے بچوں سے زیادتی کا نوٹس لینا شروع کیا اور دیگر اصلاحات پر بھی توجہ دی تو قیدیوں نے بغاوت کردی۔ان کے بقول سکھر جیل کے ایک ہنگامے کے پیچھے بھی ایسے ہی اسباب تھے۔ قصہ مختصر بچے جیل سے باہر ہوں تو قصور کے سے مگر مچھ منڈلا رہے ہیں اور جیل میں ہوں تو قیدی نمبر 75 ان کی تاک میں ہے۔ نظامِ دہر ترے اختیار میں ہے مگر ! میں سوچتا ہوں کہ تو کس کے اختیار میں ہے ؟

شیئر: