Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا نگراں حکومت پی ڈی ایم کی بی ٹیم ہے: شہرام ترکئی

خیبرپختونخوا میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے نگران کابینہ کے بعد اب نگراں وزیراعلٰی کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی نے کہا ہے کہ ’نگران حکومت پی ڈی ایم کی بی ٹیم ہے۔‘
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے نگراں وزیراعلٰی اعظم خان کا نام پی ٹی آئی اور سابق اپوزیشن لیڈر نے مل کر دیا تھا اور اتفاق رائے سے انتخاب کیا گیا تھا۔
’نگراں وزیراعلٰی غیرمتنازع شخص ہیں اور ان کی شخصیت بھی غیرجانبدار ہے مگر ان کی جانب سے کابینہ کے انتخاب نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔‘ 
شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ ’نگراں کابینہ کا فیصلہ گورنر ہاؤس میں کیا گیا جس کے تمام اراکین پی ڈی ایم جماعتوں کے ورکرز اور سابق عہدیدار ہیں۔‘
سابق صوبائی وزیر نے کہا کہ ’دراصل یہ نگراں حکومت پی ڈی ایم کی بی ٹیم ہے جس پر گورنر غلام علی اور پی ڈی ایم اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’اس پورے سسٹم پر تحفظات ہیں بالخصوص نگراں وزیراعلٰی کی ساکھ  پر سوالیہ نشان ہے۔‘
’عوام اور پی ٹی آئی جماعت نگراں وزیراعلٰی سے یہ امید نہیں رکھتی تھی۔‘
شہرام ترکئی کا مزید کہنا تھا کہ ’نگران سیٹ اپ افسوسناک ہے مگر ان سے کوئی فرق نہیں پڑنے لگا کیونکہ فیصلہ 22 کروڑ عوام نے کرنا ہے۔ عوام پی ٹی آئی کو چاہتے ہیں کیونکہ ان کے دل عمران خان کے ساتھ ہیں۔ بہت جلد انشا اللہ اکثریت کے ساتھ ہماری حکومت واپس آئے گی۔‘

شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ ’اس پورے سسٹم پر تحفظات ہیں بالخصوص نگراں وزیراعلٰی کی ساکھ  پر سوالیہ نشان ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

خیال رہے کہ گورنر خیبرپختونخوا غلام علی نے جمعرات نو فروری کو پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عوامی گورنر ہیں اگر ان سے کوئی ملنے آتا ہے تو وہ ان کو روک نہیں سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے سابق اراکین بھی ان سے ملنے گورنر ہاؤس آتے رہتے ہیں۔ 
گورنر غلام علی کے مطابق ’ان کا عہدہ ایک آئینی امانت ہے وہ صرف اسے نبھا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا کام الزامات لگانا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘ 
نگران صوبائی وزیر خوشدل خان نے یکم فروری کو اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ ’نگراں وزیراعلٰی ایک غیر متنازع اور ایماندار لیڈر ہیں اس لیے جانبداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘ 

شیئر: