Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جب بیٹے کا ہاتھ پکڑا تو اُس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘، مشال خان کی چھٹی برسی

13 اپریل 2017 کو مشال خان کو یونیورسٹی کے حدود میں پرتشدد ہجوم نے گستاخی کے الزامات منظر عام پر آنے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
خیبر پختونخوا کے شہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشال خان کی آج چھٹی برسی بنائی جا رہی ہے۔
13 اپریل 2017 کو مشال خان کو یونیورسٹی کے حدود میں پرتشدد ہجوم نے مبینہ گستاخی کے الزامات منظر عام پر آنے کے بعد قتل کر دیا تھا۔
فروری 2018 میں پشاور کی ایک عدالت نے مشال خان پر لگنے والے الزامات جھوٹ قرار دیے تھے اور 31 ملزمان کو سزا سنائی تھی۔
اس واقعے کو گزرے ہوئے چھ برس بیت گئے ہیں لیکن پاکستانی سوشل میڈیا پر صارفین آج بھی مشال خان کے بارے میں بات کرتے اور انہیں یاد کرتی ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
سید جرار حیدر نے مشال خان کی والدہ کے ایک پُرانے بیان کو دوبارہ ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میں نے جب اپنے بیٹے کا ہاتھ چومنے کے لیے پکڑا تو اُسکی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’مشال خان تیری انگلیاں نہیں ٹوٹیں، ہماری ماؤں کے ہونٹوں کا لمس ٹوٹا ہے۔‘
ایلیا زہرا نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’مشال خان کا درد ناک قتل ہمیشہ پاکستان کے مجموعی ضمیر پر ایک داغ کے طور پر رہے گا۔‘
ضیا رحمان نامی صارف نے مشال خان کے والد اقبال لالا کا ایک بیان ٹویٹ کیا جو انہوں نے دو سال قبل اپنے بیٹے کی برسی پر جاری کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سائنس کا دور ہے۔ ان بچوں کو گولیاں مت ماریں۔ ان کے سوالوں کا جواب دیں۔‘
ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’خوبصورت مشال خان کا دل انسانوں کی محبت سے لبریز اور دماغ علم کی روشنی سے منور تھا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’عقل کے اندھوں سے دو ذہین آنکھیں برداشت نہ ہوسکیں۔ انہوں نے اک روشن چراغ بحھا دیا۔‘

شیئر: