پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مردم شماری کا عمل اختتام پذیر ہونے کے قریب ہے لیکن نمایاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مردم شماری کی آخری تاریخ چار اپریل 2023 تھی لیکن کچھ علاقوں کی آبادی اور گھروں کی گنتی رہ جانے کی وجہ سے آخری تاریخ میں پہلے 10 اپریل تک توسیع کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
-
نئی مردم شماری کا اعلان: آبادی کی گنتی پر تنازع کیوں ہوتا ہے؟Node ID: 556751
-
مردم شماری ٹیم پر حملہ، ایک پولیس اہلکار ہلاکNode ID: 748986
اس کے بعد مزید پانچ دن یعنی 15 اپریل 2023 مردم شماری کی آخری تاریخ رکھی گئی ہے لیکن کراچی کی سیاسی جماعتیں مردم شماری کی آخری تاریخ میں مزید توسیع کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
کراچی کی نمایاں سیاسی جماعتوں بالخصوص متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) اور جماعت اسلامی کی جانب سے مردم شماری کے عمل پر مسلسل تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مردم شماری کہنے کو تو ڈیجیٹل ہے لیکن سارا سسٹم انتہائی فرسودہ اور بے ضابطگیوں سے بھرپور ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہر طرح سے کوشش کی جا رہی ہے کہ کراچی کی آبادی کو کم گنا جائے تاکہ وسائل اور نمائندگی پر ڈاکہ ڈالا جا سکے اور کسی بھی طرح کراچی کا وزیراعلٰی نہ بن سکے۔‘
حافظ نعیم الرحمان نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ’پاکستان کے ادارۂ شماریات نے انتہائی عیاری سے اپنی ویب سائٹ سے 2017 کی مردم شماری کے بلاک کوڈز کا ڈیٹا ہی اُڑا دیا ہے تاکہ کوئی موازنہ ہی نہ کر سکے۔‘
دو دن قبل ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ’ان کی پارٹی کی انتھک کاوشوں کی بدولت حکومت پاکستان نے کراچی سمیت پاکستان کے 19 شہروں میں مردم شماری کے عمل میں 15 اپریل تک توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ایم کیو ایم پاکستان کے ایک اور رہنما فیصل سبزواری نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ ’نادرا کے ریکارڈ کے مطابق 27 مارچ 2023 تک کراچی کے پتے پر بنے شناختی کارڈز اور رجسٹرڈ بچوں کی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ تھی۔‘
ہمارے استفسار پہ @NadraPak نے ۲۷ مارچ ۲۰۲۳ تک کراچی کے پتے پہ بنے شناختی کارڈ اور رجسٹرڈ بچوں کی تعداد ۱ کروڑ ۹۰ لاکھ سے زائد بتائی ہے۔ #کراچی میں لاکھوں افراد ہر برس روزگار کے لیے آتے ہیں جنکا شناختی کارڈ یہاں کا نہیں، اسی طرح لاکھوں غیر ملکی باشندے ملا لیں تو بات صاف ہے pic.twitter.com/NlJweCLCQ4
— Faisal Subzwari (@faisalsubzwari) April 13, 2023
ادھر اسلام آباد میں بھی کراچی کی مردم شماری کے بعد وسائل کی تقسیم اور سیاسی نمائندگی سے متعلق متوقع اثرات پر تبصرے جاری ہیں۔
بدھ کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کراچی کی آبادی کم گنے جانے کی ذمہ داری ایم کیو ایم پر عائد کر دی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ’ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کی نمائندگی مزید کم کرنے میں گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ 95 فیصد مردم شماری مکمل ہونے کے بعد جس پر 45 ارب روپے لگ گئے۔‘
’شہری سندھ اور خصوصاً کراچی کی آبادی میں نمایاں کمی دکھائی گئی ہے، اس کے نتیجے میں کراچی دو قومی نشستوں سے محروم ہو سکتا ہے۔‘
اس وقت صورت حال کیا ہے؟
اس سے قبل 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری میں پاکستان کے ادارۂ شماریات کی ویب سائٹ پر کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 25 ہزار 894 ظاہر کی گئی تھی۔
اب ساتویں مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 34 لاکھ 71ہزار 136 ظاہر کی گئی ہے جبکہ ادارہ شماریات کا موقف ہے کہ ابھی 10 فیصد آبادی کو شمار کرنا باقی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے آبادی کو کم ظاہر کرنے پر تشویش کے اظہار کی وجہ یہ ہے کہ مجموعی آبادی ہی کی بنیاد پر صوبوں کے مالیاتی حقوق اور انتخابی حلقوں کی تعداد کا فیصلہ ہوتا ہے۔ آبادی کم ظاہر ہونے کی صورت میں کراچی کی سیاسی نمائندگی بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔
ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کی نمائندگی مزید کم کرنے میں گھناؤنا کردار ادا کیا ہے، 95فیصد مردم شماری مکمل ہونے کے بعد جس پر پینتالیس ارب روپے لگ گئے شہری سندہ اور خصوصاً کراچی کی آبادی میں نمایاں کمی دکھا دی گئ ہے، اس کے نتیجے میں کراچی دو قومی نشستوں سے محروم ہو سکتا ہے، کراچی…
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) April 12, 2023