Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مردم شماری، اسمبلی میں کراچی کی نشستیں کم ہونے کا خدشہ؟  

ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی مردم شماری کے عمل پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مردم شماری کا عمل اختتام پذیر ہونے کے قریب ہے لیکن نمایاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 
مردم شماری کی آخری تاریخ چار اپریل 2023 تھی لیکن کچھ علاقوں کی آبادی اور گھروں کی گنتی رہ جانے کی وجہ سے آخری تاریخ میں پہلے 10 اپریل تک توسیع کی گئی تھی۔ 
اس کے بعد مزید پانچ دن یعنی 15 اپریل 2023 مردم شماری کی آخری تاریخ رکھی گئی ہے لیکن کراچی کی سیاسی جماعتیں مردم شماری کی آخری تاریخ میں مزید توسیع کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ 
کراچی کی نمایاں سیاسی جماعتوں بالخصوص متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) اور جماعت اسلامی کی جانب سے مردم شماری کے عمل پر مسلسل تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مردم شماری کہنے کو تو ڈیجیٹل ہے لیکن سارا سسٹم انتہائی فرسودہ اور بے ضابطگیوں سے بھرپور ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’ہر طرح سے کوشش کی جا رہی ہے کہ کراچی کی آبادی کو کم گنا جائے تاکہ وسائل اور نمائندگی پر ڈاکہ ڈالا جا سکے اور کسی بھی طرح کراچی کا وزیراعلٰی نہ بن سکے۔‘ 
حافظ نعیم الرحمان نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ’پاکستان کے ادارۂ شماریات نے انتہائی عیاری سے اپنی ویب سائٹ سے 2017 کی مردم شماری کے بلاک کوڈز کا ڈیٹا ہی اُڑا دیا ہے تاکہ کوئی موازنہ ہی نہ کر سکے۔‘
دو دن قبل ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ’ان کی پارٹی کی انتھک کاوشوں کی بدولت حکومت پاکستان نے کراچی سمیت پاکستان کے 19 شہروں میں مردم شماری کے عمل میں 15 اپریل تک توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔‘ 
ایم کیو ایم پاکستان کے ایک اور رہنما فیصل سبزواری نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ ’نادرا کے ریکارڈ کے مطابق 27 مارچ 2023 تک کراچی کے پتے پر بنے شناختی کارڈز اور رجسٹرڈ بچوں کی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ تھی۔‘ 
ادھر اسلام آباد میں بھی کراچی کی مردم شماری کے بعد وسائل کی تقسیم اور سیاسی نمائندگی سے متعلق متوقع اثرات پر تبصرے جاری ہیں۔ 
بدھ کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کراچی کی آبادی کم گنے جانے کی ذمہ داری ایم کیو ایم پر عائد کر دی۔ 
فواد چوہدری نے کہا کہ ’ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کی نمائندگی مزید کم کرنے میں گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ 95 فیصد مردم شماری مکمل ہونے کے بعد جس پر 45 ارب روپے لگ گئے۔‘
’شہری سندھ اور خصوصاً کراچی کی آبادی میں نمایاں کمی دکھائی گئی ہے، اس کے نتیجے میں کراچی دو قومی نشستوں سے محروم ہو سکتا ہے۔‘ 
اس وقت صورت حال کیا ہے؟ 
اس سے قبل 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری میں پاکستان کے ادارۂ شماریات کی ویب سائٹ پر کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 25 ہزار 894 ظاہر کی گئی تھی۔ 
اب ساتویں مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 34 لاکھ 71ہزار 136 ظاہر کی گئی ہے جبکہ ادارہ شماریات کا موقف ہے کہ ابھی 10 فیصد آبادی کو شمار کرنا باقی ہے۔ 
سیاسی جماعتوں کی جانب سے آبادی کو کم ظاہر کرنے پر تشویش کے اظہار کی وجہ یہ ہے کہ مجموعی آبادی ہی کی بنیاد پر صوبوں کے مالیاتی حقوق اور انتخابی حلقوں کی تعداد کا فیصلہ ہوتا ہے۔ آبادی کم ظاہر ہونے کی صورت میں کراچی کی سیاسی نمائندگی بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔ 
کراچی کی سیاسی جماعتیں کیا کہتی ہیں؟
 جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’جماعت اسلامی کے ادارۂ نورِحق نے مردم شماری مانیٹرنگ سیل ویب پورٹل کا اجرا کیا ہے اور جماعت اسلامی نے مردم شماری میں ایک ماہ کی توسیع کا مطالبہ بھی کیا ہے۔‘
جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے اردو نیوز کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ ’ڈیجیٹل مردم شماری کے نام پر کراچی کے  عوام کے ساتھ دھوکہ اور ظلم کیا جا رہا ہے جسے ہم کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔‘
’جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری میں جتنے بھی تحفظات، اعتراضات، جعل سازیاں اور بے ضابطگیاں ہیں ان کو سامنے لایا جائے گا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’مردم شماری میں باقاعدہ خانہ شماری نہ ہونا، ڈیڑھ ہزار کے قریب بلاکس کوڈ غائب ہونا اور عملے کی سفری سہولیات کے لیے ڈی سیز کو کروڑوں روپے کے بجٹ جاری ہونے کے باوجود عملے کو سفر کی سہولت میسر نہ آنا انتہائی قابل مذمت اور تشویش ناک ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’مردم شماری کے عملے میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں ٹیبلٹ استعمال کرنا نہیں آتا اور نہ ہی انہیں اس کی تربیت دی گئی ہے۔‘

جماعت اسلامی کی جانب سے مردم شماری میں ایک ماہ کی توسیع کا مطالبہ کیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’صوبہ سندھ میں زیادہ تر عملہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں بنیادی چیزیں تک نہیں آتیں اور ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ٹیبلٹس تھما دیے گئے ہیں۔‘ 
جمعرات کو ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مردم شماری کے حوالے سے ہر سطح پر جدوجہد کر رہے ہیں۔ اب مردم شماری پر ادارہ شماریات بھی ہماری شکایات کو جائز مان رہا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ‘ہم ان نتائج کو بالکل قبول نہیں کریں گے جنہیں ادارۂ شماریات خود نہیں مان رہا۔‘ 
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’تنقید کرنے والی تمام جماعتیں کراچی اور شہری سندھ کی دشمن ہیں۔ ان جماعتوں کا کراچی اور شہری سندھ میں کوئی سٹیک نہیں ہے۔‘ 
صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی سے اردو نیوز نے اس حوالے ان کا موقف جاننے کے لیے متعدد مرتبہ رابطے کی کوشش کی لیکن اب سے بات نہ ہو سکی۔ 
’بے ضابطگیاں ہر علاقے میں ہوئیں‘ 
صوبہ سندھ کی سیاست اور الیکشن کے امور پر گہری نگاہ رکھتے والے صحافی عبدالجبار ناصر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے حالیہ مردم شماری پر ایک تھرڈ پارٹی آڈٹ رپورٹ کا حوالہ دیا۔‘

چھٹی مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 25 ہزار 894 ظاہر کی گئی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’اس بار ابھی تک لگ بھگ 20 فیصد گھرانے خانہ شماری میں نہیں آئے اور تقریباً 15 فیصد ایسے گھر ہیں جن کے مکینوں کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔‘ 
عبدالجبار ناصر نے بتایا کہ ’میرے علم میں کراچی کی ایک پختون فیملی بھی آئی ہے جس کے 32 افراد میں سے صرف چار افراد شمار ہوئے ہیں۔‘
 مردم شماری میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بے قاعدگیاں یکساں طور پر کراچی کے ہر علاقے میں ہوئی ہیں۔ اگر اس میں پیپلز پارٹی کا کوئی کردار ہوتا تو ملیر، ویسٹ کراچی، کیماڑی میں آبادی کم شمار نہ ہوتی لیکن وہاں بھی ایسا ہوا ہے۔‘ 
’اگر ایم کیو ایم نے مردم شماری پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہوتی تو اردو بولنے والوں کی آبادی زیادہ ظاہر کی جاتی لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت لگ بھگ 11 ہزار افراد پر مشتمل عملہ مردم شماری کے عمل میں شریک ہے۔ اس میں صرف محکمہ تعلیم کے ملازمین نہیں بلکہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ملازمین بھی شامل ہیں۔‘
’کے ایم سی میں 90 فیصد ملازمین اردو بولنے والی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے کسی ایک سیاسی جماعت پر الزام نہیں دھرا جا سکتا۔‘ 
’کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں کم ہو سکتی ہیں‘ 
عبدالجبار ناصر نے بتایا کہ ’اگر آبادی کی شرح یہی ظاہر کی گئی تو اس کے صوبہ سندھ پر واضح اثرات پڑ سکتے ہیں۔‘

عبدالجبار ناصر نے کہا کہ ’کراچی میں قومی اسمبلی کی دو جبکہ صوبائی اسمبلی کی چار سے پانچ نشستیں کم ہونے کا خدشہ ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی) 

’خدشہ ہے کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی چار سے پانچ نشستیں دیہی سندھ میں منتقل ہو جائیں گی۔ اور پھر صوبہ سندھ کا این ایف سی ایوارڈ میں حصہ بھی متاثر ہو گا۔‘ 
’اس وقت دیہی سندھ کی آبادی 60 جبکہ شہری سندھ کی آبادی 40 فیصد ہے۔ اگر کراچی کے شہریوں کو درست طور پر شمار نہ کیا گیا تو امکان ہے شہری علاقوں کا کوٹہ سات فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’مردم شماری کو شفاف بنانے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان نے کوشش کی اور اس سلسلے میں کیمپس بھی لگائے لیکن سچ یہ ہے کہ شہریوں نے انہیں کچھ زیادہ اچھا رسپانس نہیں دیا۔‘ 
عبدالجبار ناصر کراچی میں مردم شماری میں بے قاعدگیوں یا اس کے نامکمل رہنے کا ذمہ دار مجموعی طور پر سندھ حکومت کو قرار دیتے ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلٰی، چیف سیکریٹری اور ڈپٹی کمشنرز کے پاس تمام ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ انہیں مردم شماری کے عملے کو سکیورٹی اور مناسب سہولیات فراہم کرنا چاہیے تھیں۔‘ 
’دوسری جانب شہریوں کی عدم توجہی بھی اس کا ایک سبب ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ مردم شماری کا عملہ گھر کے گیٹ پر پہنچا تو اسے گھر بند ملا یا پھر کسی بچے نے انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ گھر میں کوئی موجود نہیں ہے۔‘ 

احمد بلال محبوب کے مطابق ’کراچی کی مردم شماری میں مسائل کی ایک بڑی وجہ عملے کی تربیت کا نہ ہونا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عملے کی تربیت اور نگراں انتظامیہ کا مسئلہ 
پاکستان میں جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے نجی ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی کی مردم شماری میں مسائل کی ایک بڑی وجہ عملے کی تربیت کا نہ ہونا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’عملے پر ایک انتظامی چیک بھی ہونا چاہیے جو اس عمل کی شفافیت کا جائزہ لیتا رہے۔ تو یہی انتظامیہ کی کوتاہی بھی ہے۔‘ 
کیا سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی مردم شماری پر اثرانداز ہو رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے۔‘
’اگر کسی علاقے میں پیپلز پارٹی کے ہمدرد ایسا کرنا بھی چاہیں تو یہ چیک کرنا بہت آسان ہے۔ مردم شماری کے عملے کو دیے گئے ٹیبلٹس میں تمام ڈیٹا موجود ہے جسے چیک کیا جا سکتا ہے۔‘ 
کراچی کی آبادی کم گِننے کے ممنکہ نتائج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’آبادی کے لحاظ سے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نسشتوں کی تعداد کا تعین ہوتا ہے۔‘
’اگر کراچی کی آبادی کم ہوئی تو ظاہر ہے ان کی نشستیں بھی کم ہو جائیں گی اور پورے صوبہ سندھ سمیت کراچی کے مالیاتی حصے سے متعلق سوال اٹھیں گے۔ یعنی کراچی کا حصہ کم ہو جائے گا۔‘ 

ادارۂ شماریات کے ترجمان سرور گوندل کا کہنا ہے کہ ’مردم شماری کا فیلڈ آپریشن کامیاب بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ادارۂ شماریات پاکستان کا موقف کیا ہے؟ 
ملک میں مردم شماری اور دیگر سرویز کے ذمہ دار ادارۂ شماریات (پی بی سی) کے ترجمان سرور گوندل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مردم شماری کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے دی۔‘
’اس کے لیے سافٹ ویئر نادرا نے تیار کیا جبکہ ہم نے مردم شماری کے ایک لاکھ 21 ہزار افراد پر مشتمل عملے کو ملک بھر کے 992 مقامات پر ٹریننگ دی۔‘ 
کراچی کی مردم شماری میں شکایات کے حوالے سے سرور گوندل کا کہنا ہے کہ ’مردم شماری کا فیلڈ آپریشن کامیاب بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں شہری علاقوں میں مسئلہ ہوا۔ کراچی کی کئی کثیرالمنزلہ عمارتوں میں مردم شماری کا عملہ دوسری منزل سے اوپر نہیں جا سکتا۔ اسی طرح پوش علاقوں اور گیٹڈ کمیونیٹیز میں عملے کو مکمل رسائی نہیں مل سکی۔‘ 
’اس میں ایک مسئلہ سکیورٹی کا تھا۔ کراچی میں 10 ہزار سے زائد عملے کو صرف ایک دن چار ہزار پولیس اہلکاروں کی سکیورٹی فراہم کی گئی۔ اس میں متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز کا کردار اہم تھا لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داری صحیح طور پر نہیں نبھائی۔‘ 
سرور گوندل نے مزید کہا کہ ’ہم نے شکایات کے لیے فون نمبر بھی دیا ہوا ہے لیکن اس پر شہریوں کی شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اب جماعت اسلامی کراچی نے اپنے طور پر شکایات سیل بنایا ہے تو ان کی طرف سے موصول ہونے والی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔‘ 
انہوں نے کہا ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ مردم شماری کرنے والے عملے کی نگرانی اور سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔‘ 

شیئر: