’پاکستانی اور روسی وزرائے خارجہ نے غذائی تحفظ، توانائی اور عوامی رابطوں میں تعاون کو مزید وسعت دینے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا‘
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم نے روس کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی کی نئی راہیں کھولی ہیں۔‘
بعدازاں جمعرات کی رات ہی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے انڈین ہم منصب جے شنکر کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شرکت کی۔
اس موقعے پر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر نے مصافحہ کیا اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی۔
اس سے قبل گوا پہنچنے پر بلاول بھٹو نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’آج سب سے پہلے میری ملاقات روس کے وزیر خارجہ سے ہو گی اور اس کے بعد ازبکستان کے وزیر خارجہ سے ملوں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اس کے بعد اجلاس میں شریک تمام وزرائے خارجہ کو دیے گئے عشائیے میں شرکت کریں گے۔
اس سے قبل انڈیا پہنچنے پر صحافیوں سے مختصر گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ گوا پہنچنے اور ایس سی او کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کرنے پر بہت خوش ہیں۔
On my way to Goa, India. Will be leading the Pakistan delegation at the Shanghai Cooperation Organization CFM. My decision to attend this meeting illustrates Pakistan’s strong commitment to the charter of SCO.
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) May 4, 2023
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ ایس سی او کا اجلاس کامیاب ہو گا۔‘
قبل ازیں روانگی سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان کی دورے کے دوران توجہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس پر مرکوز ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا جانا یہ واضح پیغام بھیجتا ہے کہ پاکستان ایس سی او کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور سنجیدگی سے اپنی رکنیت کو لیتا ہے۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس اجلاس میں ان کی شرکت کا فیصلہ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے لیے پاکستان کے مضبوط عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
’دورے کے دوران توجہ شنھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس پر مرکوز ہو گی، دوستانہ ممالک کے وزرائے خارجہ سے تعیمری بات چیت کا خواہاں ہوں۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس انڈیا کے شہر گوا میں ہو رہا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال ہو گا۔
بیان کے مطابق بحرین، کویت، مالدیپ، متحدہ عرب امارات اور میانمار کو ڈائیلاگ پارٹنر بنانے کے لیے مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط بھی ہوں گے۔
اس موقع پر تین اور چار جولائی کو نئی دہلی میں ہونے والی 17ویں ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف سٹیٹ میٹنگ کے ایجنڈے اور فیصلوں کو حتمی شکل بھی دی جائے گی۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر نائب صدر اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیر خارجہ کے دورے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلال بھٹو ویڈیو لنک کے ذریعے بھی اجلاس میں شرکت کر سکتے تھے۔
یہ کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا گزشتہ 12 برس میں انڈیا کا پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل 2011 میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر انڈیا گئی تھیں۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانچ اگست 2019 کے بعد سے تجارتی اور سفارتی تعلقات سردمہری کا شکار ہیں جب انڈیا کی حکومت نے اپنے زِیرانتظام جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے یونین ٹیریٹریز میں بدل دیا تھا۔
پاکستان نے اس اقدام کو یک طرفہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کشمیریوں کی حق رائے شماری کے اپنے موقف کو دہرایا تھا۔
پانچ اگست 2019 کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاسی تعلقات میں تناؤ دیکھنے میں آتا رہا اور سابق وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر انڈیا کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
اس دوران انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں پلوامہ حملہ، انڈیا کی جانب سے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک اور انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کی پاکستانی حدود میں گرفتاری اور پھر رہائی جیسے واقعات پر دونوں ممالک کے درمیان گرم سرد بیانات کا تبادلہ جاری رہا۔
اب پاکستان میں قائم اتحادی حکومت کے دور میں پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کا انڈیا جانا ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔