Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مظاہروں میں تین سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت، ایران میں 3 افراد کو پھانسی

ایران میں گزشتہ برس ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ (فوٹو: روئٹرز)
ایران نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعتراضات کے باوجود گزشتہ برس حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے کے الزام میں تین افراد کو پھانسی دے دی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ میزان پر جمعے کو اعلان کیا گیا کہ مجید کاظمی، صالح میرهاشمی اور سعید یعقوبی کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ تاہم ان سزاؤں کے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں گئیں۔
ایرانی حکام کے مطابق ان تینوں نے گزشتہ برس نومبر میں ملک گیر مظاہروں کے دوران اصفہان میں ایک پولیس افسر اور فوجی ملیشیا بسیج کے دو ارکان کو ہلاک کیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان تینوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ٹی وی پر زبردستی ان سے اعترافی بیانات دلوائے گئے اور ان کے قانونی حق سے انکار کیا گیا۔
ایران میں گزشتہ برس ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ مہسا امینی کو ملک کی اخلاقی پولیس نے اسلامی لباس کے ضابطہ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔
مظاہرین نے سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے برسراقتدار آنے والے مذہبی حکومت کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں درجنوں سکیورٹی اہلکاروں سمیت پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ تقریباً 19 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے کئی اب تک رہا ہو چکے ہیں۔
ایران کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو پھانسی پر چڑھایا جاتا ہے۔ سنہ 2022 میں کم از کم 582 لوگوں کو سزائے موت دی گئی۔
 
 

شیئر: