صدر اردوغان کا صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں جیت کا اعلان
صدر اردوغان کا صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں جیت کا اعلان
اتوار 28 مئی 2023 16:31
کمال قلیچ داراوغلو کے حامیوں کے خیال میں یہ رجب طیب اردوغان کو ہرانے کا آخری موقع تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں اپنی فتح کا اعلان کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولنگ کے بعد استنبول میں اپنے گھر کے باہر حامیوں سے خطاب میں صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا تھا ’میں ترکوں کا ملک پر ایک بار پھر پانچ سال کے لیے حکومت کرنے کی ذمہ داری دینے پر شکر گزار ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج کے صدرارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ کا فاتح صرف ترکیہ ہے۔‘
69 سالہ لیڈر نے اپنی حکومت کو درپیش بدترین معاشی بحران اور اپوزیشن کے طاقت ور ترین اتحاد کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔
تقریبا مکمل نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اردوغان نے اپنے سیکولر حریف کمال قلیج داراوغلو سے چار فیصد سے زائد ووٹ زیادہ حاصل کیے۔
ترکی کے اہم شہروں میں صدر اردوغان کی جیت کے ساتھ ہی جشن شروع ہوگیا۔
استنبول کے تاریخی تقسیم سکوائر میں ٹریفک جش کی وجہ سے جام ہوگیا جب کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد انقرہ میں صدارتی محل کے باہر جمع ہوگئے۔
اپوزیشن لیڈر کمال قلیج داراوغلو نے اعلان کیا کہ وہ اتوار کو رات گئے بیان جاری کریں گے۔۔
ترکی کے سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنے والے حکمران کو ایک ایسے امتحان درپیش تھا جو کہ انہوں نے کبھی سامنا نہیں کیا تھا اور ان انتخابات کو ترکی کے عثمانی دور کے بعد کے 100 سالوں کا اہم ترین الیکشن قرار دیا گیا تھا۔
کمال قلیچ دار اوغلو نے صدر اردوغان کے خلاف انتھائی مضبوط اتحاد تشکیل دیا تھا جس میں اردوغان کے ناراض سابق حلیفوں سمیت سیکولر قوم پرست اور مذہبی قدامت پسند شامل تھے۔
قلیج داراوغلو نے اردوغان کو پہلی مرتبہ انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں دکھیل دیا اور سینڈ راؤنڈ میں شکست کا مارجن بھی پہلے راؤنڈ کی نسبت کم کیا۔
اپوزیشن کے حامیوں کا خیال تھا کہ یہ ترکی کو شخصی آمریت بننے سے روکنے کے لیے ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ والا موقع تھا۔
اتوار کو ووٹ ڈالنے کے بعد قلیج داراوغلو نے کہا تھا کہ ’میں تمام شہریوں کو اس آمرانہ حکومت کو ختم کرنے اور ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے لیے ووٹ ڈالنے کا کہوں گا۔‘
قبل ازیں اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کے جیتنے کے قوی امکانات ظاہر کیے تھے
نیٹو کے رکن ممالک میں سے سب سے طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے رجب طیب اردوغان نے 14 مئی کو اپنے تمام مخالفین کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنے مخالف سیکولر امیدوار کمال قلیچ داراوغلو پر برتری حاصل کر لی تھی۔
قلیچ داراوغلو ایک مشترکہ سیاسی اتحاد کے امیدوار ہیں جس میں ترک صدر کے ناراض سابق اتحادیوں سمیت سیکولر قوم پرست اور دائیں بازو کے مذہبی قدامت پسند بھی شامل ہیں۔
اپوزیشن کے حامیوں کے خیال میں یہ ترکیہ کو ایک ایسی ریاست میں بدلنے سے روکنے کا آخری موقع تھا جس میں طاقت کا منبع صرف ایک شخص ہو۔
اردوغان کو ان کے طرز سیاست کی وجہ سے ان کے مخالفین عثمانی سلطانوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کے بعد کمال قلیچ داراوغلو نے کہا تھا کہ ’میں اپنے تمام شہریوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کی دعوت دیتا ہوں تاکہ اس آمرانہ حکومت سے نجات حاصل کرتے ہوئے ملک میں حقیقی آزادی اور جمہوریت آ سکے۔‘
رجب طیب اردوغان کو پہلے مرحلے میں برتری ایک ایسے وقت میں حاصل ہوئی تھی جب ترکیہ کی معیشت کی حالت کافی پتلی ہے اور تقریباً تمام رائے عامہ کے پولز نے ان کی شکست کی پیشن گوئی کی تھی۔
اتوار کو 69 سالہ ترک صدر استنبول کے ایک قدامت پسند ڈسٹرکٹ میں اپنی اہلیہ امینہ کے ساتھ ووٹ ڈالتے ہوئے تھکے ہوئے لگ رہے تھے لیکن وہ پرسکون نظر آئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اپنے شہریوں سے کہوں گا کہ باہر نکلیں اور بغیر کسی پریشانی کے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔‘.
امیر بلگن نے ترک رہنما کی پکار پر لبیک کہا۔ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 24 سالہ نوجوان جن کا تعلق استنبول کے متوسط طبقے کے علاقے سے ہے، کہا کہ ’میں اردوغان کو ووٹ دینے جا رہا ہوں۔ ان کے جیسا اور کوئی نہیں ہے۔‘
کمال قلیچ داراوغلو پہلے مرحلے کے بعد ایک بدلے ہوئے آدمی بن کر ابھرے۔
سابق سرکاری ملازم کے سماجی اتحاد اور جمہوریت کے پرانے پیغام اور تارکین وطن کو فوری طور پر ملک بدر کرنے اور دہشت گردی سے لڑنے کی ضرورت کی تقریروں کو کافی پسند کیا گیا۔
انہوں نے دائیں بازو کی طرف جاتے ہوئے قوم پرستوں کو نشانہ بنایا جو پارلیمانی انتخابات میں بڑے فاتح بن کر ابھرے ہیں۔
74 سالہ کمال قلیچ داراوغلو نے ہمیشہ سی ایچ پی پارٹی بنانے والے فوجی کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک کے پختہ قوم پرست اصولوں کی پاسداری کی۔
لیکن اس نے ان کی سماجی طور پر لبرل اقدار، جس پر نوجوان ووٹرز اور بڑے شہروں کے رہنے والے عمل پیرا ہیں، کو فروغ دینے میں ثانوی کردار ادا کیا۔
کرد نواز پارٹی کے ساتھ ان کے غیر رسمی اتحاد کی وجہ سے انہیں اردوغان کی جانب سے ’دہشت گردوں‘ کے ساتھ کام کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت کرد پارٹی کو کالعدم عسکریت پسندوں کے سیاسی ونگ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اور قلیچ داراوغلو کے ترکیہ کی دائیں بازو کی جماعت سے اتحاد کی وجہ سے دو ہفتے قبل پہلے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے قوم پرست رہنما نے اردوغان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔