فہد نذر نے کہا کہ ’شکوک و شبہات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘ (فوٹو: عرب نیوز)
مشرق وسطٰی کی سیات تسلسل کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے جس کا ثبوت چین کی مدد سے سعودی عرب اور ایران جیسے پرانے حریفوں کے درمیان رواں برس مارچ میں ہونے والا امن معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے بعد چین کو امن ممکن بنانے والے ملک کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ چین اور انڈیا سعودی عرب سے تیل درآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہیں، تو کیا اس صورتحال میں امریکہ سعودی عرب کے لیے ابھی بھی ایک اہم شراکت دار ہے؟
واشنگٹن میں سعودی ایمبیسی کے چیف ترجمان فہد نذر نے عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شکوک و شبہات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کے سعودی عرب کے حالیہ دورے سے یہ تعلق اور گہرا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تعلق نہ صرف قائم ہے بلکہ کئی برسوں سے مزید گہرا اور وسیع ہوا ہے۔‘
فہد نذر کے مطابق ’گذشتہ برس جولائی میں صدر جو بائیڈن کے دورے کی طرح ان دوروں سے سیاسی تعاون، سکیورٹی تعاون، فوجی تعاون اور تجارتی تعلقات مزید بہتر ہوئے۔ اسی طرح سائبر سکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی، فوڈ سکیورٹی اور خلائی ریسرچ جیسے نئے محاذوں پر ان تعلقات میں مزید وسعت آئی ہے۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ابتدائی دنوں کے رویے جو دیکھتے ہوئے کچھ ماہرین نے گذشتہ دو برسوں میں سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کو بدترین قرار دیا تھا، تاہم فہد نذر اس سے متفق نہیں ہیں۔
انہوں نے میزبان سے کہا کہ ’میرے خیال میں تعلقات کئی برسوں سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں، اس کے باوجود جن گذشتہ دو برسوں کا آپ ذکر کر رہی ہیں، ہمارت تعلقات، تعاون اور کئی معاملات میں ہم آہنگی جاری ہے۔‘
فہد نذر نے اس کے لیے مشترکہ فوجی مشقوں، امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے سعودی طالب علموں اور سعودی عرب میں رہنے والے امریکی شہریوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہماری سالانہ دوطرفہ 40 ارب ڈالر کی تجارت سے ایک لاکھ 65 ہزار امریکیوں کو روزگار ملتا ہے۔
ان کے مطابق مارچ میں سعودی عرب دو بڑی ایئر لائنز ریاض ایئر اور سعودیہ نے 121 بوئنگ ڈریم لائنر خریدنے کے لیے 37 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا۔
چین کے تعاون سے مارچ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ ہوا تھا (فوٹو: اے پی)
واشنگٹن میں سعودی ایمبیسی کے چیف ترجمان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی تعلق میں کچھ پالیسیز پر آپ کا اختلاف رائے ہوتا ہے، لیکن سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کو وسیع نظری سے دیکھا جائے تو ہماری پالیسیز اختلافات سے زیادہ آپس میں ملتی ہیں۔‘
چین کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو کچھ ناقدین ’امریکہ کے لیے دھچکا‘ قرار دے رہے ہیں، تاہم امریکہ نے کہا تھا کہ اسے اس ڈیل کے حوالے سے بتایا گیا تھا۔
فہد نذر نے کہا کہ ’اگر ایران کی بات کی جائے تو ہم کہتے رہے ہیں کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے۔ اس میں بہت صلاحیت ہے اور ان کی تاریخ اور ثقافت عظیم ہے۔ گذشتہ دو برسوں میں کئی مقامات پر بات چیت کی ہے جس پر حتمی معاہدہ مارچ میں بیجنگ میں ہوا، اور ہم نے تعلقات کی بحالی اور اپنے سفارت خانے کھولنے کا اعلان کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تمام مسائل حل ہو گئے ہیں، خاص طور پر اگر ایرانی جوہری منصوبے پر سعودی عرب کے تحفظات کو دیکھا جائے، تاہم اس ڈیل سے حاصل ہونے والے استحکام سے سعودی عرب اور خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔