’بپر جوائے‘: ساحلی علاقوں میں سمندر کا پانی آبادی میں داخل، 67 ہزار افراد کا انخلا
’بپر جوائے‘: ساحلی علاقوں میں سمندر کا پانی آبادی میں داخل، 67 ہزار افراد کا انخلا
بدھ 14 جون 2023 22:31
زین علی -اردو نیوز، کراچی
طوفان کے باعث بننے والی لہریں جیٹیوں کو عبور کرتے ہوئے جزیروں میں داخل ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بحیرہ عرب میں بننے والا طوفان ’بپرجوائے‘ پاکستان کی ساحلی پٹی کے مزید قریب پہنچ گیا۔
پاکستان کے ساحلی علاقوں سے طوفان کا فاصلہ 300 کلومیٹر سے کم ہونے کے باعث ساحلی علاقوں پر اس کے اثرات نظرآنے لگے۔
کراچی کے بیشتر ساحلی علاقوں میں پانی ساحل کو عبور کرتے ہوئے مرکزی شاہراہ سے آگے بڑھ کر سمندر کنارے موجود آبادیوں میں داخل ہوگیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سڑکوں سے پانی کو نکالنے کے لیے مختلف مقامات پر فٹ پاتھ میں کٹ لگائے جارہے ہیں۔
کراچی ہاکس بے، سینڈزپٹ، کھگا ویلیج میں اونچی لہروں کے باعث علاقہ مکمل طور پر آمد ورفت کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی کیماڑی کے قریب واقع جزیرے بابا، بھٹ اور شمس پیر میں بھی صورتحال خراب ہے۔
طوفان کے باعث بننے والی لہریں جیٹیوں کو عبور کرتے ہوئے جزیروں میں داخل ہو رہی ہے۔
بابا آئیلینڈ کے رہائشی حسن علی بھٹی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بدھ کی شام سے پانی کےبہاؤ میں مزید تیزی آئی ہے۔ جس کی وجہ سے اب سمندری پانی جیٹی کو کراس کرتے ہوئے جزیرے میں داخل ہورہا ہے۔
’مینگروز کی رکاوٹ سے جزیرے کے دو حصے کسی حد محفوظ ضرور ہیں لیکن بدھ کی رات اور جمعرات کا دن جزیروں پر رہنے والوں کے بہت مشکل ہیں۔‘
محکمہ موسمیات کے مطابق سمندر کی لہریں ہواؤں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔
چیف میٹرولوجسٹ کراچی سردار سرفراز نے اردو نیوز کو بتایا کہ سمندری طوفان بپر جوائے کا رخ کراچی سے کیٹی بندر کی جانب تبدیل ضرور ہوا ہے لیکن طوفان کے اثرات کراچی پر ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ منگل کی رات سے کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں تیز ہواؤں کے ساتھ وقفے وقفے سے ہلکی اور تیز بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ جو آئندہ دو سے تین دنوں میں مزید بڑھ جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ طوفان کے کیٹی بندر سے ٹکرانے پر ساحلی پٹی میں 100 سے 120 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔
کراچی کے ساحل سے سائیکلون بپر جوائے تقریبا 250 کلومیٹر کے فاصلے سے گزرتے ہوئے جمعرات کے روز دن کے وقت کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔
دریں اثنا وزیر اعظم پاکستان نے ہدایت کی ہے کہ ساحلی علاقوں پر عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جائیں۔
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے موجودہ صورتحال میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
کمیٹی کے رکن وفاقی وزیر سید امین الحق نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم نے واضح ہدایات دی ہیں کہ طوفانی صورتحال میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سمیت افواج پاکستان گراؤنڈ پر ہے۔ ’کوشش کررہے ہیں کہ اس مشکل وقت میں عوام کے تحفظ کے لیے بہتر سے بہتر اقدامات کریں۔‘
ترجمان وزیر اعلیٰ سندھ نے اردو نیوز کو بتایا صوبے کی ساحلی پٹی میں طوفان کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ وزیر اعلیٰ سندھ خود لے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ افواج پاکستان سمیت تمام ادارے حکومت سندھ کے ساتھ آن بورڈ ہیں۔ ’کوشش کی جارہی ہے کہ طوفان سے متاثر ہونے والے علاقوں میں موجود تمام افراد کو باحفاظت محفوظ مقامات پر منتقل کردیں۔‘
اب تک کتنے افراد نقل مکانی کرچکے ہیں؟
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ سندھ کے ساحلی تین اضلاع سے مجموعی طور پر 67 ہزار 367 افراد کو محفوظ مقامات تک منتقل کردیا گیا ہے۔
تینوں اضلاع میں مجوعی طور پر 39ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تحصیل کیٹی بندر کی 13 ہزار آبادی سے 10 ہزار انتظامیہ نے اور 3000 رضاکارانہ منتقل ہوچکے ہیں۔
تحصیل کیٹی بندر میں 6 ریلیف کیمپوں میں 5000 افراد کی گنجائش ہے اور 1500 خاندان منتقل ہوئے ہیں۔
’تحصیل گھوڑاباڑی کی پانچ ہزار آبادی سے انتظامیہ نے 3 ہزار پانچ سو جبکہ15 سو رضاکارانہ منتقل ہوئے، تحصیل گھوڑاباڑی میں 3 ریلیف کیمپوں میں ہزار افراد کی گنجائش ہے جبکہ 445 خاندان منتقل ہوچکے ہیں۔
تحصیل شہید فاضل راہو کی 19 ہزار 38 آبادی سے انتظامیہ نے 14 310 جبکہ 5160 رضاکارانہ منتقل ہوچکے ہیں۔
ضلع بدین کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 6ریلیف کیمپوں میں 1650 کی گنجائش اور 1650 خاندان منتقل ہوچکے ہیں۔ تحصیل شاہ بندر کی 8000 آبادی سے انتظامیہ نے 8300 منتقل کردیے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہ بندر میں 10 ریلیف کیمپوں میں 9500کی گنجائش موجود اور 1300خاندان منتقل ہوئے، تحصیل جاتی کی 8070 آبادی سے حکومت نے 2165جبکہ 3000 رضاکانہ منتقل ہوگئے، جاتی میں 4 ریلیف کیمپوں میں 2500 کی گنجائش موجود اور 840خاندان منتقل کردیئےگئے ہیں۔ کھاروچھان کی 7935 آبادی سے انتظامیہ نے 3872جبکہ 1000رضاکانہ طور منتقل ہوئے ہیں۔
سندھ کے علاقے سجاول، کیٹی بندر، بدین، ٹھٹہ اور عمرکوٹ میں کیا صورتحال ہے؟
ضلع سجاول سے تعلق رکھنے والے صحافی شبیر سموں نے اردو نیوز کو بتایا کہ سندھ کے علاوہ ٹھٹہ، گھوڑا باڑی، فاضل راہو، شاہ بندر، جاتی، کھارو چان ،کیٹی بندر اور گھوڑا باڑی سمیت دیگر علاقوں میں صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔
’دو روز سے چلنی والی تیز ہواؤں کے ساتھ اب سمندری پانی بھی علاقوں میں داخل ہورہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کیٹی بندر اور گھوڑا باڑی میں ماہی گیروں کے گھروں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے ان کے کچے مکان مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی لانچیں بھی پانی کی نذر ہوگئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے سمندری علاقوں کے قریب آباد افراد کی نقل مکانی تو ہورہی ہیں لیکن اب بھی بڑی تعداد میں لوگ اپنے علاقوں میں موجود ہیں۔ اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ بدین کا کہنا ہے کہ کہ ان کی کوشش ہے کہ موجودہ صورتحال میں تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کریں۔
’سمندری پٹی سے دور محفوظ مقامات پر عوام کو منتقل کیا جارہا ہے۔ لوگوں کی جانب سے مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص کر ماہی گیر اپنے علاقے چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔‘
ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی عابد شیخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ٹھٹھہ میں انتظامیہ کی جانب سے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ ساحلی پٹی پر موجود آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔
عمر کوٹ تھرپارکر کے رہائشی لیاقت مبین کا کہنا ہے کہ ضلع تھرپارکر میں بھی انتظامیہ کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ عمر کوٹ سمیت دیگر علاقوں میں بسنے والوں کو ہدایات کی گئی ہیں کہ جمعرات اور جمعہ کے روز بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ سمندری طوفان کے اثرات تھرپارکر میں بھی آئیں گے اس لیے شہری احتیاط کریں۔