Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلوبل وارمنگ کے اثرات، پانچ جولائی کرہ ارض کا گرم ترین دن قرار

5 جولائی کو کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت 62.9 فیرن ہائیٹ تھا۔ فوٹو: اے پی
کئی دہائیوں اور ممکنہ طور پر صدیوں کے بعد کرہ ارض کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ گیا کہ سائنسدانوں نے غیرسرکاری طور پر 5 جولائی اب تک کا گرم ترین دن قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ روز 5 جولائی کو کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت 62.9 فیرن ہائیٹ یعنی 17.18 ڈگری سیلسیس تھا۔ جبکہ اس سے پچھلے دن 4 جولائی کو 62.6 ڈگری فیرن ہائیٹ ریکارڈ کیا گیا جو صرف 24 گھنٹوں کے لیے برقرار رہا۔
بدھ کو کرہ ارض کا درجہ حرارت 1979 سے 2000 کے مقابلے میں تقریباً 1.8 ڈگری زیادہ تھا جو انیسویں اور بیسویں صدی کے اوسط درجہ حرارت سے زیادہ ہے۔
امریکی سٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدان کرس فیلڈ کا کہنا ہے کہ اس قسم کا ریکارڈ ایک اور ثبوت پیش کرتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مستقبل کا درجہ حرارت گرم ہوگا۔
امریکی ماحولیاتی ادارے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کی سربراہ سارہ کیپنک کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز 5 جولائی کو 3 کروڑ 80 لاکھ امریکیوں کو شدید ہیٹ ویو کا سامنا تھا۔
یہی نہیں بلکہ قدرے ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والوں کو بھی اس مرتبہ شدید گرمی برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ 
کرہ ارض کا درجہ حرارت جانچنے کے لیے استعمال ہونے والے پیمانے ’کلائیمیٹ ری اینالائزر‘ بنانے والے سائنسدان شان برکل کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت سے متعلق حاصل کردہ یومیہ اعداد و شمار غیرسرکاری ہیں تاہم گرم ہوتی ہوئی زمین کا احوال بتانے کے حوالے سے اہم ضرور ہیں۔
این او اے اے کی سربراہ سارہ کیپنک کا کہنا ہے کہ ڈیٹا کے مطابق کئی سو سالوں میں دنیا کو ممکنہ طور پر گرم ترین دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کینیڈا کے وسطی صوبے کیوبیک اور لاطینی امریکی شہر پیرو میں اس ہفتے کے دوران شدید درجہ حرارت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے جبکہ گزشتہ ہفتے چینی دارالحکومت بیجنگ میں درجہ حرارت 9 دن تواتر سے 95 ڈگری فیرن ہائیٹ رہا۔
درجہ حرارت میں اضافے کے منفی اثرات کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس سے دنیا بھر میں انسانوں کے لیے بدترین حالات پیدا ہوتے جائیں گے جو ان کی صحت کو متاثر کریں گے۔
امریکہ میں ماحولیاتی ماہر ایرینانے سافل کا کہنا ہے کہ انسانوں کا جسم اس حد تک تیز درجہ حرارت کا عادی نہیں ہے، اس لیے اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ کن علاقوں کے لوگ زیادہ خطرے کی زد میں ہوں گے۔

شیئر: