سعودی سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی تعداد 1.2 ملین تک پہنچ گئی
رپورٹ کے مطابق 88 ہزار سے زیادہ نئے کاروبار شامل ہوئے ہیں( فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کاروباری سرگرمیوں میں زبردست تیزی دیکھ رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق مملکت میں پہلی سہ ماہی کے اختتام پر رجسٹرڈ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی مجموعی تعداد 1.2 ملین تک پہنچ گئی ہے کیونکہ مملکت مقامی کاروبار کو بڑھانے کے اپنے ہدف کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس میں 88 ہزار سے زیادہ نئے کاروبار شامل ہیں جو 2023 کی پہلی سہ ماہی میں پورے مملکت میں قائم ہوئے تھے جو 2022 کی چوتھی سہ ماہی کے مقابلے میں 4.8 فیصد شرح نمو اور 2016 سے 179 فیصد کی شرح نمو درج کر رہے ہیں۔
یہ مہم معاون کاروباری پالیسیوں، فائدہ مند میکرو اکنامک حالات، متوقع سرمایہ کاری اور ایک قائم شدہ کاروباری ثقافت کے امتزاج سے چلائی گئی۔
المدینہ المنورہ چیمبر کے چیئرمین منیر محمد ناصر بن سعد نے ایس ایم ای مانیٹر رپورٹ میں کہا کہ ’مملکت نے اپنی معیشت کو ترقی دینے، تیل پر انحصار کو کم کرنے اور ایک متنوع اور پائیدار ماحولیاتی نظام کی تعمیر، ایس ایم ای کی ترقی اور نجی اور سرکاری شعبے کے تعاون کے ذریعے کاروباری افراد کی حمایت کرنے کے ویژن 2030 کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کئی جرات مندانہ انیشیٹوز لیے ہیں۔‘
انہوں نے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بہت سی اختراعی خدمات کے ذریعے وسیع تر انٹرپرینیورشپ ایکو سسٹم کو فعال کیا گیا ہے جو سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کو پیش آنے والے چیلنجز پر قابو پانے میں مدد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سعودی عرب کا سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ماحولیاتی نظام پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے لیکن ریاض ریجن اس شعبے پر حاوی ہے کیونکہ دارالحکومت کئی اہم صنعتوں میں ترقی کو فروغ دیتا ہے۔
مملکت کی ابھرتی ہوئی نئی سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی پہلی سہ ماہی میں 359 ملین ڈالر کی وینچر کیپیٹل فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز سرگرمیوں میں غیر معمولی ترقی نے پہلی سہ ماہی کے اختتام تک سعودی عرب میں 6.5 ملین افراد کو ملازمت فراہم کی۔
دریں اثنا، منشات نے ایس ایم ای بینک کے آغاز میں بھی مدد کی جس نے ایس ایم ایز کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور 2030 تک مجموعی گھریلو پیداوار میں ان کی شراکت کو 35 فیصد تک بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔