Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جامع مسجد دہلی میں پہلی غیر ملکی مذہبی شخصیت کے خطبے نے نئی تاریخ رقم کی

رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ شیخ عبدالکریم العیسیٰ 10جولائی کو انڈیا  آئے۔ فوٹو عرب نیوز
جامع مسجد دہلی میں 85 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اور مسجد میں نمازیوں کا بھرپور منظر اس وقت دیکھنے کو ملا جب رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل اور مسلم سکالرز کی تنظیم کے چیئرمین شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے گذشتہ جمعے کا خطبہ دیا۔
عرب نیوز کے مطابق رابطہ عالمی اسلامی کی ویب سائٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گذشتہ 400 برس میں یہ پہلا موقع تھا جب انڈیا سے باہر سے کسی مذہبی شخصیت نے دہلی کی جامع مسجد میں خطبہ دیا۔

شیخ العیسیٰ نے انڈیا میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ فوٹو عرب نیوز

دہلی کی جامع مسجد برصغیر پاک و ہند کی سب سے بڑی، سب سے خوبصورت اور سب سے پسندیدہ اسلامی عبادت گاہوں میں سے ایک ہے۔
جامع مسجد کی طویل اور باوقار تاریخ کے پیش نظر یہ لمحہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا جب رابطہ عالمی اسلامی کے سربراہ نے اس مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز جمعہ کی امامت کی جو جدید ہندوستان کے  اتحاد کی عکاسی ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کے وفد کی سربراہی کرتے ہوئے شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ 10جولائی کو سرکاری دورے پر انڈیا آئے جہاں انہوں نے ہند کی صدر دروپدی مرمو، وزیراعظم نریندر مودی اور اقلیتی امور کی وزیر سمرتی ایرانی سے ملاقاتیں کی۔
شیخ محمد بن عبدالکریم نے انڈیا کے سینئر اسلامی سکالرز اور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں۔

انڈیا میں تقریباً 21 کروڑ مسلمان ہیں جو بڑی مسلم اقلیتی آبادی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

حکام نے بتایا کہ ان کا دورہ برادرانہ اور دوستانہ بات چیت کو فروغ دینے، افہام و تفہیم اور تعاون کو بڑھانے اور مذاہب کے درمیان مشترکہ دلچسپی کے بہت سے موضوعات پر بات چیت کرنے کے لیے ترتیب دیاگیا۔
اس موقع پر جامع مسجد کے امام محمد عبد الحکیم الکندی نے رابطہ عالم اسلامی کے لیے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ  محترم  ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کا حالیہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ساتھ ساتھ ہند میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تعلقات کو بھی وسعت دیتا ہے۔
انڈیا کی 1.4 ارب نفوس پر مشتمل آبادی میں تقریباً 21 کروڑ مسلمان ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتی آبادی ہیں جب کہ دیگر اقلیتوں میں جین، سکھ، عیسائی اور بدھ مت شامل ہیں۔
رابطہ عالم اسلامی کے وفد کے دورے کے دوران شیخ عبدالکریم العیسیٰ کے خطبے اور دیگر تقریبات میں موجود مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ اس دورے سے بین المذاہب ہم آہنگی کو مزید فروغ ملے گا۔

جامع مسجد کا تاریخی پس منظر


انگریز دور میں جامع مسجد کی قسمت کے بارے میں مختلف آپشنز پر تبادلہ خیال ہوا۔

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کی ریسرچ سکالر سعدیہ عزیز نے اپنے 2017 کے  ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مسجد جہاں نما کا سنگ بنیاد 6 اکتوبر 1650 کو سعد اللہ خان، وزیراعظم اور شاہجہاں کے گھریلو ادارے کے سربراہ فاضل خان کی نگرانی میں رکھا گیا۔
مغلیہ سلطنت کے پانچویں حکمران شاہ جہاں کے دور میں 1656 میں دہلی کی جامع مسجد کی دس لاکھ روپے کی لاگت سے تکمیل ہوئی۔
یہ مسجد دہلی کے لال قلعہ سے 1,000 گز دور بھوجلا نامی پہاڑی پر تعمیر ہے اور اس علاقے کو شاہجہان آباد بھی کہا جاتا تھا۔
سیاہ اور سفید سنگ مرمر کی دھاریوں سے مزین تین گنبدوں والی یہ مسجد تقریباً 261 فٹ لمبی اور 90 فٹ چوڑی ہے۔

اس دورے سے بین المذاہب ہم آہنگی کو مزید فروغ ملے گا۔ فوٹو عرب نیوز

جامع مسجد میں داخل ہونے کے تین دروازے شمالی، جنوبی اور مشرقی سمت میں ہیں۔ ایک دروازہ خصوصی طور پر شہنشاہ کے لیے مخصوص تھا جو ہر جمعہ اور عید کے موقع پر لال قلعہ سے شہزادوں، رئیسوں اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ اس جانب سے مسجد میں داخل ہوتے تھے۔
مسجد کو دو ناموں سے جانا جاتا ہے، پہلا شاہی نام ہے جسے شہنشاہ نے تجویز کیا مسجد جہاں نما جب کہ دوسرا نام جامع مسجد ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ مقبول ہوا۔
مسجد کے  تاریخی پس منظر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دہلی شہر پر1803 میں انگریزوں نے قبضہ کر لیا اور نوآبادیاتی حکام نے مسجد کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔
ستمبر 1857 کے وسط میں نوآبادیاتی عملداری بحال ہوئی تو مسلم آبادی کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا اور دہلی کی متعدد مساجد کو منہدم کر دیا گیا۔

انگریز دور میں جامع مسجد کی قسمت کے بارے میں مختلف آپشنز پر تبادلہ خیال ہوا۔

انگریز دور میں جامع مسجد کی قسمت کے بارے میں مختلف آپشنز پر تبادلہ خیال ہوا اور انہدام سے لے کر چرچ یا سیکولر کالج میں تبدیلی بھی منصوبوں میں شامل تھی۔
آخر کار اسے پنجاب سے سکھ فوجیوں کے لیے بیرکوں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
کافی عرضداشتوں کے بعد 28 نومبر 1862 کو مسجد کو پرانے شہر کے باشندوں کو واپس کر دیا گیا جس میں کئی اصول و ضوابط نافذ کیے گئے جن پر نمازیوں کو عمل کرنا تھا۔

شیئر: