پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت اٹک جیل میں قید ہیں اور ان کی جماعت کے رہنما تسلسل کے ساتھ ان کی اڈیالہ جیل منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پیر کو عمران خان کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں عمران خان کو اڈیالہ منتقل کر کے اے کلاس فراہم کرنے کی استدعا کی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابتدائی سماعت میں اس درخواست پر اعتراضات عائد کیے ہیں اور امکان ہے کہ یہ درخواست سماعت کے لیے کل مقرر ہو گی۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان کی سیاست ختم شد؟ ماریہ میمن کا کالمNode ID: 785521
-
چیئرمین تحصیل کونسل متھرا کے انتخاب میں پی ٹی آئی کامیابNode ID: 785571
پاکستان کے سیاسی مباحثوں میں اٹک قلعے کا ذکر استعارے کے طور پر ہوتا رہتا ہے جبکہ اٹک جیل بھی ماضی بالخصوص فوجی آمروں کے ادوار میں کئی سیاسی رہنماؤں کا ’ٹھکانہ‘ رہ چکی ہے۔
اس وقت تحریکِ انصاف کا چہرہ پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ہیں جو رواں برس فروری میں خود بھی اٹک جیل میں قید کاٹ چکے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے اتوار کی شام اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ’عمران خان کو عدالت نے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن انہیں اٹک جیل بھجوا دیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں اٹک جیل میں رہ چکا ہوں وہاں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں بی کلاس تک میسر نہیں۔ ہمارے علم میں آیا ہے کہ ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان کو نو بائی 11 کے سیل میں رکھا گیا ہے۔‘
سوال یہ ہے کہ عمران خان کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل یا پھر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے بجائے اٹک جیل میں منتقل کرنے کی وجہ کیا ہے؟
تجزیہ کار عمران خان کی اڈیالہ یا کوٹ لکھپت جیل کے بجائے اٹک جیل منتقلی کو بہت غیرمعمولی اقدام نہیں سمجھتے۔ ان میں سے بیشتر کے پیش نظر اسلام آباد اور اٹک کے درمیان فاصلہ کم ہونا ہی ہے۔
’راولپنڈی سکیورٹی کے لحاظ سے حساس شہر‘
سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کی اٹک جیل منتقلی کی وجہ کے بارے میں متعلقہ حکام ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ راولپنڈی سکیورٹی کے لحاظ سے ایک حساس شہر ہے اور وہاں کی اڈیالہ جیل کے باہر لوگوں کو جمع ہو جانا نسبتاً زیادہ آسان ہے۔ شاید یہی پہلو سامنے رکھا گیا ہو۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اٹک جیل کا شمار ملک کی محفوظ ترین جیلوں میں ہوتا ہے۔ اٹک قلعہ اس سے زیادہ سکیور سمجھا جاتا ہے جس میں نواز شریف کو رکھا گیا تھا۔ نواز شریف کے کیس کی حساسیت بھی اس وقت کے لحاظ سے زیادہ تھی۔‘
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی عدالت سزا سناتے ہوئے یہ نہیں کہتی کہ مجرم کو فلاں جیل میں رکھا جائے۔ یہ فیصلہ وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت محکمے کرتے ہیں۔ کورٹس کا اس میں عمل دخل نہیں ہوتا۔‘
’ریلیف ملا تو کسی اور کیس میں بند کیا جا سکتا ہے‘
عمران خان کو اپیل میں صورت میں ریلیف مل سکے گا؟ اس سوال کے جواب میں مظہر عباس نے کہا کہ ’ابھی ان کے پاس اپیل کے لیے فورمز دستیاب ہیں۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ریلیف مل جائے گا کیونکہ عموماً اپیل کے ساتھ ریلیف کی درخواست بھی دائر کی جاتی ہے۔ اگر انہیں توشہ خانہ کیس میں ریلیف مل بھی گتا تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی اور کیس میں بند کر دیا جائے۔‘
سندھ پولیس کے انسپیکٹر جنرل اور نیشنل پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ سمیت کئی اہم عہدوں پر کام کا تجربہ رکھنے والے ریٹائرڈ آفیسر افضل علی شگری کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کو عدالت کے حکم کے برعکس کسی اور جیل میں رکھا گیا ہے تو اس کی ٹھوس وجوہات عدالت کے سامنے رکھنا ہوں گی۔
’اٹک جیل تو اسلام آباد سے کافی قریب ہے‘
افضل علی شگری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میڈیا میں خبریں نشر ہو رہی ہیں کہ اس جیل میں سہولیات نہیں ہیں، لیکن مجھے اس بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں۔ عام طور پر قیدیوں کے بارے میں محکمہ داخلہ فیصلہ کرتا ہے۔ قیدی کی کہیں اور منتقلی کی وجہ ’سکیورٹی وغیرہ‘ بیان کی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں ایسا ہوتا تھا کہ کسی سیاست دان کو تنگ کرنا ہو تو اسے بلوچستان کی مچھ جیل میں بھیج دیا جاتا تھا تاکہ کوئی اس سے مل نہ سکے لیکن اٹک جیل تو اسلام آباد سے کافی قریب ہے۔‘
’ایک دوسرے سے بدلہ لینے کا سیاسی ماحول‘
جیل میں ملنے والی سہولیات پر بات کرتے ہوئے افضل شگری نے بتایا کہ ’کوئی سابق وزیراعظم یا کسی بھی اہم عہدے پر فائز رہنے والا قیدی ہو تو جیل میں اس کے رتبے کے مطابق اسے سہولیات ملنی چاہییں اور جیل مینوئیل میں اس کی تفصیل ہوتی ہے۔‘
’لیکن جس قسم کا ہمارا سیاسی ماحول ہے، وہاں ایک دوسرے سے بدلے لینے کی روایت عام ہے۔ عمران خان بھی اپنے دور حکومت میں سیاسی قیدیوں کے بارے میں ایسی باتیں کرتے رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب اس حکومت کے چند دن رہ گئے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ عمران خان کو تنگ کر سکیں گے۔ اس کے بعد ویسے ہی نگراں حکومت آ جائے گی۔‘
ماضی میں کون سے سیاسی رہنما اٹک جیل میں قید رہے؟
جب سابق فوجی آمر جنرل مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا تو شہباز شریف کو اٹک جیل میں قید رکھا گیا۔ انہیں احتساب عدالت کی جانب سے ایم آئی۔8 ہیلی کاپٹرز کی خریداری میں کِک بیکس لینے لے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ سردار مہتاب احمد خان، سابق وزیر مواصلات اعظم خان ہوتی، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور نواز شریف کے بیٹے حسین نواز بھی اٹک جیل میں قید کاٹ چکے ہیں۔
سنہ 1999ء ہی میں اس وقت معزول کیے گئے وزیراعظم نواز شریف کو اٹک قلعے میں قید رکھا گیا اور اس کے بعد انہیں 10 برس کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔

اٹک جیل اور اٹک قلعہ
یہ دونوں الگ الگ جگہیں ہیں۔ اٹک جیل شہر کے اندر راولپنڈی پشاور ریلوے ٹریک کے ساتھ واقع ہے اور یہ برطانوی حکمرانوں نے 1905 میں تعمیر کی تھی۔
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق اٹک جیل کا کل رقبہ 67 ایکڑ، چھ کنال اور 12 مرلے ہے۔ اس کی عمارت 17 ایکڑ اراضی پر محیط ہے۔ اس میں جیل کالونی کا علاقہ 26 ایکڑ دو کنال جبکہ 22 ایکڑ چار کنال رقبہ زرعی زمین پر مشتمل ہے۔ جیل کے رقبے میں دو ایکڑ زمین بنجر ہے۔
اٹک جیل میں 539 قیدیوں کی گنجائش ہے، تاہم اس میں 804 افراد قید ہیں۔
اٹک قلعہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی سرحد پر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ اس کا ایک داخلی دروازہ راولپنڈی پشاور جی ٹی روڈ کی جانب بھی کھلتا ہے۔ یہ قلعہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں سنہ 1581 کو تعمیر کیا گیا تھا۔
