سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق وزیر اسلامی امور شیخ ڈاکٹرعبداللطیف آل الشیخ نے کانفرنس کے شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ’ یہ کانفرنس مشاورت کے عظیم تصور کی آئینہ دار ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب انصاف، رحم دلی، میانہ روی، اعتدال پسندی اور اسلام کے شفاف پیغام کی علمبردار ہے‘۔
وزیر اسلامی امور نے مزید کہا کہ’ یہ کانفرنس اعتدال کو فروغ دینے کےلیے مملکت کی کوششوں کا تسلسل ہےجو حقیقی اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے۔
’اس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا فروغ، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کےلیے مملکت کے مشن کو آگے بڑھانا تھا جس سے مسلم ممالک اور عالمی سطح پر امن، خوشحالی اور استحکام آئے‘۔
قازقستان کے مفتی نے اپنے خطاب میں امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس اتحاد کا باعث بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ متعدد یورپی ممالک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات بار بار ہوئے۔ یورپی ممالک میں مقدس کتاب کی بے حرمتی کی مذمت پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جانا چاہئے‘۔
امارات میں اسلامی امور و اوقاف کے محکمے کے سربراہ ڈاکٹر محمد مطر الکعبی نے کہا کہ’ یہ کانفرنس زبردست چیلنجوں اور اسلامی اقدار کے نظام کو اکھاڑ پھینکنے والی کوششوں کے ماحول میں ہورہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی اسلام کےعلمبردار اسلام کے اعلی تصورات کو یرغمال بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ کی ایسی انتہا پسندانہ تشریحات کررہے ہیں جن سے متاثرین تشدد اور دہشت گردی پر آمادہ ہورہے ہیں‘۔
ماریطانیہ کے مفتی اعلی کا کہنا تھا’ یہ کانفرنس نئے حالات کے حوالے سے امت مسلمہ کی بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہورہی ہے‘۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’یہ کانفرنس اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی کوششوں، فکری چیلنجوں اور سیاسی تبدیلیوں کے جس ماحول میں ہورہی ہے‘۔
’حالات کا تقاضا ہے کہ ان جارحانہ رجحانات کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور اسلامی اتحاد کے تصور کو اجاگر کریں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب نے کانفرنس کی میزبانی کرکے امت مسلمہ کی نشاۃ نو کے لیے مثبت رجحانات کی حمایت کرنے والے حقیقی رہنما کا کردار ادا کیا ہے‘۔