تحریک آزادی و حصول آزادی کی ’تاریخ کے آئینہ دار‘ اخبار
پیر 14 اگست 2023 13:04
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
یہ 14 اگست 1947 کی صبح ہے اور سائیکل پر ایک ہاکر آپ کے گھر کے دروازے میں ’انقلاب‘ اخبار کا شمارہ پہنچا رہا ہے۔ ’انقلاب‘ اخبار کے اس شمارے میں ایک نجی کمپنی کا تشہیری خط شائع ہوا ہے جس میں ’پاکستان مل گیا، پاکستان بن گیا، پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے جلّی حروف میں لکھے گئے ہیں اور عوام کو آزادی کی نعمت کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔
آج سے 76 سے قبل تقسیم ہند کے موقع پر کئی اخبارات میں اسی طرح کے نعرے درج تھے۔ تحریک ازادی کے دوران کئی اخبارات شائع ہوتے تھے جن میں، انقلاب، زمیندار، نوائے وقت، روزنامہ احسان، سٹار آف انڈیا اور ڈان شامل ہیں۔ ان اخبارات کا تحریک آزادی سے لے کر حصول آزادی تک مسلمان زعماء کے بیانات اور تقاریر کو مسلمانوں تک پہنچانے میں بڑا کردار رہا ہے۔
آج چودہ اگست 2023 ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں قائم ایک تحقیقی ادارے ’ریسرچ سوسائٹی پاکستان‘ کی لائبریری میں تحریک آزادی کے وقت شائع ہونے والے مختلف اخبارات محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ جس طرح اس دن کوتاریخی حوالوں سے اہمیت حاصل ہے اسی طرح اس دن شائع ہونے والے اخبارات بھی مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔
ریسرچ سوسائٹی پاکستان کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں ان اخبارات کا احوال کچھ یوں بتایا کہ ’پنجاب یونیورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی میں وہ تمام اخبارات محفوظ ہیں جن کی بدولت آزادی کی تحریک میں شامل مسلمانوں کے رہنماؤں کے بیانات اور تقاریر شائع ہو کر مسلمانوں کے گھر گھر پہنچائے جاتے تھے۔‘
انہوں نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اخبارات تاریخ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ آپ آج ان گزشتہ شماروں کو تبدیل نہیں کر سکتے، اخبارات آپ کو ایک حقیقی تصویر دکھاتی ہیں۔ جو معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے ان اخبارات میں اسی وقت کی عکاسی ہوتی ہے۔‘
ان کے بقول ریسرچ سوسائٹی پاکستان کی لائبریری میں روزنامہ زمیندار، انقلاب، سول اینڈ ملیٹری گزیٹس، انڈین ٹائمز اور اس وقت کے دیگر اخبارات موجود ہیں۔ ’ان اخبارات کو دیکھ کر ہمیں اس وقت کی حقیقی تصویر ملتی ہے، مسلمان کیا سوچتے تھے، ہندوؤں کے کیا خیالات تھے، انگریزوں کی کیا سوچ تھی، عام لوگ کیا سوچتے تھے۔ یہ سب کچھ ان اخبارات میں درج ہے۔‘
اُردو نیوز کو ڈاکٹر محبوب حسین نے بتایا کہ ’یہ اخبارات ہمیں ماضی میں لے جاتی ہے، ان کے ذریعے ہم اپنا ماضی تصویری شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔جب ایک قاری اور محقق ان اخبارات کو دیکھتا اور پڑھتا ہے تو اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود اس دور میں چلا گیا ہو۔‘
ان کے مطابق یہ اخبارات ہمیں آج بھی خبر دیتے ہیں کہ اس وقت کس طرح کے بیانات شائع ہو رہے تھے اور اس کی مخالفت میں کیا بیانیہ رائج تھا؟
ریسرچ سوسائٹی پاکستان کی لائبریری میں 1930 سے لے کر آزادی کے بعد کئی سالوں تک شائع ہونے والےاخبارات کے نسخے موجود ہیں۔ ڈاکٹر محبوب حسین کے مطابق ’خطبہ آلہ آباد، گول میز کانفرنس، آئین ، قرار داد لاہور،سے متعلق خبریں ہمارے پاس آج تک محفوظ ہیں۔ جلسوں کے انتظامات کیسے ہو رہے تھے، مسلم راہنماء کیا بیانات جاری کر رہے تھے، ان کی مکمل تقاریر سمیت تاریخ کے مختلف پہلو آج بھی اخباری شکل میں محفوظ ہیں۔‘
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح میڈیاکی اہمیت کواچھی طرح سمجھتے تھے۔ سینیئرصحافی اورسابق ڈائریکٹرآئی ایس پی آر زیڈاے سلہری مرحوم تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ساتھ رہے اور ان کے انٹرویوز بھی ریکارڈ کیے۔ وہ اپنی کتاب ’میرا قائد‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں نے قائداعظم کو مسلم اخبارات کے لیے رپورٹنگ اورپاکستان کے حق میں پروپیگنڈا کرنے کی غرض سے انگلینڈ جانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے برطانیہ میں جدوجہد آزادی کی تشہیرکی ضرورت سے فوراً اتفاق کیا۔ وہ کانگریس کے پروپیگنڈے کاتوڑ کرنے کی ضرورت سے پوری طرح باخبر تھے۔‘
یہی وجہ تھی کہ قائداعظم کی ہدایت پرانگریزی اخبار ڈان کا آغازہوا جس میں قائد اعظم نے اپنی تقاریر اوربیانات کے ذریعے پاکستان کاپیغام ہر مسلمان کے گھر تک پہنچایا۔ ڈاکٹر محبوب حسین نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ‘قائداعظم اس وقت کے بڑے لیڈر تھے، ان کی تقاریر کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی ان کی تقریر سے شہ سرخی بنتی تھی اور لوگوں کو حوصلہ ملتا تھا۔‘
30 جولائی 1947 میں شائع ہونے والے انقلاب اخبار کے ایک شمارے میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی قیام کی خبر درج ہے جس میں ’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بن گئی، ارکان کی کل تعد 66 ہوگی‘ کی سرخی لکھی گئی ہے۔ایک اور شمارے میں قائداعظم کی تقریر بھی شائع کی گئی تھی۔ اخبار کی شہ سرخی کچھ یوں تھی ’پاکستان کے ہر شہری کو بغیر کسی امتیاز کے یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔‘
اس سے قبل ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ’پاکستان کے نئے گورنر جنرل قائد اعظم کوئی تنخواہ نہیں لیں گے‘ 1947 کو آزادی کے قریب ایک خبر شائع ہوئی تھی جس کے مطابق ’پاکستان اور ہندوستان کی علیحدہ علیحدہ حکومتیں پرسوں دہلی میں قائم ہوجائیں گی۔‘
جب قائداعظم نے مسلمانوں سے امیدیں باندھی تو اس وقت انہوں نے اپنی تقریر میں قومی اتحاد پر زور دیا تھا۔ اس وقت اخبار میں ان کی تقریر اس شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی کہ ’مجھے اپنی قوم پر پورا اعتماد ہے، ہم متحد ہو کر دنیا کی ہر تکلیف کا مقابلہ کریں گے‘۔
انقلاب اخبار میں ’جشن آزادی سے پہلے امن کی ضرورت‘ کے نام سے اداریہ بھی چھپا ہوا ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان کے رہنماؤں کو امن قائم رکھنے کے لئے ان کے فرائض یاد دلائے گئے ہیں۔ جب کراچی میں کانگریسی راہنماؤں کی جانب سے سندھ اسمبلی پر پاکستانی پرچم لہرانے کے خلاف احتجاج ہوا تو مسلم لیگی راہنماؤں نے احتجاجاً بیان جاری کیا جس کی خبر ’سندھ کی تمام سرکاری عمارتوں پر پاکستانی جھنڈا لہراتا رہے گا‘ کی سرخی کے ساتھ شائع ہوئی۔
ڈاکٹر محبوب حسین بتاتے ہیں کہ ان اخبارات کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے تاہم آج کل تو سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر لمحے کی خبر پلک جھپکتے ہی ہم تک پہنچ جاتی ہے لیکن آج سے سات دہائیاں قبل بھی خبروں کا یہ سلسلہ چل رہا تھا جس کی تحریک آزادی میں بڑی اہمیت ہے۔
ان کے مطابق اس وقت اخبارات ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچائے جاتے تھےاور یہ خبریں اس وقت کے مسلمانوں کو آگاہی دینے میں بہت مؤثر ثابت ہو رہے تھے جن میں اس وقت کے سیاسی زعماء کے بیانات باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے۔
’اس دور میں جو خبریں تھیں وہ حقیقت کے کسی حد تک قریب ہیں، آج اگر ہم نے ماضی کو لے کر دوبارہ تاریخ مرتب کرنی ہے تو ان اخبارات سے ہم مدد لے سکتے ہیں۔‘ ان کے بقول اگر ہم تاریخ کو مرتب کرنا چاہیں تو ان اخبارات کے علاوہ دیگر ذرائع جیسے نوٹیفیکیشنز، رسیدیں ، سوانح عمریاں اور دیگر ذرائع کو ملا کر تاریخ تشکیل دی جا سکتی ہے۔
اُردو نیوز کی ٹیم پنجاب یونیورسٹی میں قائم اس لائبریری میں گئی تو وہاں تاریخ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ ان میں ’لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس' سے لے کر ’ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے آغاز تک‘ ہر خبر محفوظ ہے۔ ان کے علاوہ مولانا آزاد کی تقریر کو ’ترنگے،جھنڈے کے لئے ہم جان بھی قربان کر دیں گے‘ کی سرخی کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔
اس وقت کے ایک ’آزمودہ کار جوتشی 'کی پیشن گوئی کچھ یوں شائع کی گئی ہے‘ 15اگست کا مہورت ٹھیک نہیں ہے، آزمودہ کار جوتشی کی پیشن گوئی‘ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسمبلی کا آئندہ اجلاس 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو ٹھیک بارہ بجے شروع ہو گا۔ اس اجلاس میں انتقال اختیارات کی رسم ادا کی جائے گی اور انڈین ڈومینین کی پہلی کابینہ حلق اٹھائی گی۔
اخبار کے اس خبر میں اخباری رائی دی گئی ہے کہ ’کہا جاتا ہے کہ 15اگست کو مہورت ٹھیک نہیں ہے، لیکن چونکہ انتقال اختیارات 15 اگست کوہی ہوگا تو اس لیے اس کے لیے وقت ٹھیک بارہ بجے رکھا گیا ہے۔ جس جوتشی نے مہورت کے منحوس ہونے کی اطلاع د ی ہے، اسی نے شملہ کانفرنس کی ناکامی کی پیش گوئی بھی کی تھی جو صحیح ثابت ہوئی تھی‘ ان خبروں کے علاوہ علامہ محمد اقبال اور حفیظ جالندھری کی مشہور تصانیف ارمغان حجاز اور شاہنامہ اسلام کی اشاعت سے متعلق اشہتار بھی شائع ہوئےہیں۔
جب منٹو پارک لاہور میں قرارداد لاہور پیش ہوئی تو اسے قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا جبکہ ہندو میڈیا کی جانب سے اس کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ اس وقت کے مسلمانوں پر ہندو میڈیا کا یہ اقدام ناگوار گزرا اور مسلمانوں کوذرائع ابلاغ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ڈان کے بعد کلکتہ سے مارننگ نیوزکاآغازہوا۔ مسلمانوں کی جانب سے مختلف اخبارات تواتر کے ساتھ شروع ہوئےلیکن مسلمانوں کے لیے نیوز ایجنسی کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی تھی۔ تب مسلمانوں نے اورینٹ پریس آف انڈیا کے نام سے ایک نیوز ایجنسی کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے مسلمانوں کے مفادات کی خبریں ہندوستان کے تمام میڈیا اوربیرون ملک بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اسی طرح کلکتہ سے ’سٹارآف انڈیا‘ اور لاہورسے نیوٹائمز کے نام سے اخبار شروع کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ڈاکٹرمسکین علی حجازی نے بھی تحریک پاکستان میں اخبارات وجرائد کے حوالے سے کافی کام کیاہے۔
آج 76 سال بعد جب ان اخبارات کے نسخے جامعہ پنجاب میں محفوظ ہیں تو تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے طلباء دنیا بھر سے یہاں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے آتے ہیں۔ ڈاکٹر محبوب حسین نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے ہاں بڑی تعداد میں طلباء تحقیق کر رہے ہیں۔ چائنہ، جاپان، افغانستان اور دیگر ممالک سے طلباء یہاں تحقیق کے لیے آتے ہیں اور ان دستاویزات کو پرکھ کر تاریخ تشکیل دیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر محبوب حسین کے مطابق ریسرچ سوسائٹی پاکستان نے اب اخبارات کے ان تاریخی اوراق کو محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور ان کو ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈیجیٹل شکل میں محفوظ کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو ان نسخوں تک رسائی آسان بنائی جا سکے۔