Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر عارف علوی کے پانچ سال، ’انہوں نے پارٹی کارکن کی طرح وقت گزارا‘

صدر عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے دیرینہ رکن ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے عہدے کی آئینی مدت آج مکمل ہو رہی ہے۔ 
ڈاکٹر عارف علوی کی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ دیرینہ وابستگی ہے اور ان کا شمار سابق وزیراعظم عمران خان کے قابلِ اعتماد دوستوں میں بھی ہوتا ہے۔ 
اپریل 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے قبل تک صدر عارف علوی ایوان صدر کی ذمہ داریاں ہموار طریقے سے نبھاتے رہے لیکن اپنی پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ 
پارلیمنٹ کی جانب سے کچھ قانونی بِلز پر دستخط کا معاملہ ہو یا تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا معاملہ، ایسے مواقع پر صدر عارف علوی نے اپنا الگ موقف اپنایا اور اس کا اظہار بھی کیا۔ 

حکومت کے ساتھ تناؤ کی کیفیت 

رواں برس اگست کے آخر میں اس وقت حالات کافی پیچیدہ ہو گئے جب صدر عارف علوی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے دو نئے قوانین آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔ 
صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں اپنے سٹاف کے کچھ افراد پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا ہے۔‘ 
وزارتِ قانون نے اس کے ردعمل میں موقف اپنایا کہ اگر صدر نے دستخط نہیں کیے تھے تو انہیں آئین میں درج مدت کے اندر اندر اپنے اختلافی نوٹ کے ساتھ یہ قانونی بِل واپس بھیجنے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 
اس معاملے میں 21 اگست کو ایک اور پیش رفت یہ ہوئی کہ صدر عارف علوی نے اپنے سیکریٹری وقار احمد کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں اور اپنے خط میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی گریڈ 22 کی افسر حمیرا احمد کو سیکریٹری تعینات کرنے کے لیے کہا۔ 
اس کے علاوہ عام انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر بھی عارف علوی کا موقف اتحادی حکومت اور الیکشن کمیشن کے نقطۂ نظر کے برعکس رہا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے حکام کو ملاقات کے لیے بلایا لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے اس معاملے میں سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا۔  
صدر عارف علوی کو ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے کئی اعتبار سے آئینی تحفظ حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے دیگر تمام صف اوّل کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات اور ان کی گرفتاریوں کے باوجود عارف علوی محفوظ رہے۔ 

صدر عارف علوی کا شمار سابق وزیراعظم عمران خان کے قابلِ اعتماد دوستوں میں بھی ہوتا ہے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اب سوال یہ ہے کہ عارف علوی اپنے عہدے کی مدت مکمل ہونے پر ایوان صدر سے رخصت ہو جائیں گے یا پھر نئے صدر کے انتخاب تک وہ ایوان صدر ہی کے مکین رہیں گے۔ 
اس ضمن میں چند دن قبل ایوان صدر میں ہونے والی ایک اہم ملاقات کا حوالہ بھی سیاسی مباحثوں میں دیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کا چرچا گزشتہ ہفتے پاکستان کے مقامی میڈیا میں ہوا تھا۔ تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکی تھیں۔ 
دوسرا یہ کہ ایوان صدر میں اب ان کے اختیارات کیا پہلے جیسے ہی ہوں گے یا ان کی پوزیشن میں کوئی فرق آئے گا۔  
اس کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور سوال بھی ہے، وہ یہ کہ ایوان صدر سے نکلتے ہی تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کی طرح ان کے خلاف بھی مقدمات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا؟ 
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر عارف علوی نئے صدر کے انتخاب تک اس عہدے پر رہتے ہیں ہیں تو ان کی موجودہ اختیارات میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پہلے ہی سے بہت محدود ہیں۔ 

’صدر عارف علوی نے پارٹی کارکن جیسا رویہ رکھا‘ 

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عارف علوی کا پانچ سالہ دور صدارت آئیڈیل نہیں تھا۔ انہوں نے ایوان صدر میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن کے طور پر وقت گزارا۔ وہ پارٹی کے قائد عمران خان کے احکامات پر بلا چوں و چراں عمل کرتے رہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’ایوان صدر میں ہوتے ہوئے عارف علوی نے ایک لمحے کے لیے خود کو ایسی بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا کہ وہ پارٹی کارکن سے اٹھ کر پوری قوم اور تمام پارٹیوں کا اعتماد حاصل کر سکیں۔‘ 
’ہاں ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے شاید انہیں ان کی سیاسی جماعت کے اندر سراہا جائے لیکن باہر ایسا نہیں ہو گا۔‘ 
احمد بلال محبوب نے سپریم کورٹ کے سینیئر جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ریفرنس بھیجنا اور پھر واپس لینا، یہ ان کے کیریئر پر ایک داغ رہے گا۔ اسی طرح آخر میں فوج کے اختیارات کے متعلق دو قوانین کے بارے میں یہ موقف اپنانا کہ اس پر انہوں نے دستخط نہیں کیے۔‘ 
’سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے دستخط نہیں کیے تو قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت انہیں کیوں محسوس ہوئی۔‘ 

عارف علوی نے 9 ستمبر 2018 کو صدارتی منصب سنبھالا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’نیا صدر آںے تک اختیارات وہی رہیں گے‘ 

اپنی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد ایوان صدر میں عارف علوی کی پوزیشن پہلے جیسی ہی ہو گی یا اس میں فرق آ سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’نئی منتخب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے قیام کے بعد ہی نیا صدر منتخب ہو گا۔ اس وقت تک عارف علوی بظاہر انہی اختیارات کے  ساتھ ایوان صدر میں مقیم رہیں گے۔‘ 
کیا اس عہدے سے الگ ہونے کے بعد ان کے خلاف بھی پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت کی طرح انتقامی کارروائیاں ہو سکتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن عارف علوی کوئی ایسی شخصیت نہیں کہ ان پر سختی کر کے کوئی سیاسی فائدہ لیا جا سکتا ہے۔ ہاں، اگر وہ سیاسی طور پر سرگرم ہوتے ہیں تو اس کا امکان بھی ہے۔‘ 
سینیئر سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کے خیال میں عارف علوی کے ایوان صدر میں پہلے اڑھائی تین برس بالکل سکون سے گزرے کیونکہ وہاں حکومت اپنی تھی اور کسی تصادم کا خدشہ نہیں تھا۔ 

’گزشتہ ڈیڑھ برس عارف علوی کے لیے مشکل رہے‘ 

زاہد حسین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں صدر کے دفترکے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں۔ اس کی حیثیت علامتی سی ہے۔ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن جب عمران خان کے حکومت گرائے جانے کے بعد مخالف سیاسی جماعتوں کی حکومت بنی تو کچھ موقعوں پر عارف علوی کا کردار بدلتا نظر آیا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ ڈیڑھ برس میں ان کے لیے مسائل رہے، انہوں نے بعض معاملات پر مزاحمت کی۔ آرمی سے متعلق قوانین پر انہوں مختلف موقف اپنایا لیکن بالآخر ان کے دفتر کے اختیارات محدود ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی دب گیا۔‘ 
’انہوں نے جب یہ کہا کہ ان قوانین پر انہوں نے دستخط نہیں کیے تو اس سے عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں، انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے داد ضرور مل گئی۔‘ 
زاہد حسین سمجھتے ہیں کہ اگر عارف علوی نئے صدر کے انتخاب تک ایوان صدر میں رہتے ہیں تو وہ انہی محدود اختیارات کے ساتھ رہیں گے جو آج تک ان کے پاس تھے۔ یعنی Lame Duck ٹائپ صدر ہوں گے۔‘ 

’ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں‘ 

’جہاں تک رہا عہدے سے الگ ہونےکے بعد ان کے خلاف مقدمات قائم ہونے کا سوال تو مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ ان کا ایوان صدر میں ہوتے ہوئے پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اپنی پارٹی کی حمایت کرنا تو کوئی ایسا جرم نہیں ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کرپشن کا کوئی بڑا الزام ہے۔‘ 
سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کا خیال ہے کہ یہ ساری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ جب وہ ایوان صدر میں اپنی پارٹی کا آدمی لاتی ہیں تو وہ اس منصب کی غیرجانبداری کے تقاضوں کی تکمیل کی بجائے اپنی قیادت کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے تگ و دو شروع کر دیتا ہے۔ 

’پی ٹی آئی قیادت انتہاپسند رویے کی طرف مائل رہی‘ 

سلمان غنی نے صدر عارف علوی کے بطور صدر کردار سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’عارف علوی نے کئی مرحلوں پر تصادم کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن آخری مرحلے میں وہ اپنی پارٹی کی قیادت ہی سے رہنمائی لیتے تھے۔ ان کی پارٹی قیادت انتہاپسندی کی جانب مائل تھی۔ اسی وجہ سے اس وقت عمران خان جیل میں ہیں اور ان کی سیاسی جماعت کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان سے قبل ایک مذاکراتی کمیٹی بھی بنی تھی لیکن آخر میں عمران خان نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ عارف علوی کا پالا ایسی قیادت سے پڑا تھا جو کسی سیاسی مفاہمتی عمل کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔‘ 

’عارف علوی کے خلاف مقدمات بننا خطرناک رجحان ہو گا‘ 

سلمان غنی کےمطابق ’عارف علوی نیا صدر منتخب ہونے تک اسی عہدے پر رہیں گے لیکن اس عہدے میں آئینی مدت کے دوران رہنے کا معاملہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کے طرز عمل پر مںحصر ہو گا کہ وہ غیرجانبدار رہتے ہیں یا ایک پارٹی کارکن کے جیسا رویہ رکھتے ہیں۔‘ 
بعد میں ان پر مقدمات بنائے جا سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جس پوزیشن میں وہ ایوان صدر چھوڑیں گے، انہیں اندازہ ہو گا کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات نہیں بنیں گے۔ ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ان پر کرپشن یا بدعنوانی کے الزامات نہیں ہیں۔‘ 
’لیکن اس کے باوجود اگر عہدے سے فارغ ہونے کے بعد ان کے خلاف مقدمات بنائے گئے تو یہ پاکستان کی سیاست کے لیے ایک خطرناک رجحان ہو گا۔‘ 

شیئر: