Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقِ وسطٰی ’تاریخی امن کے انتہائی قریب‘ ہے: اسرائیلی وزیراعظم

نیتن یاہو نے کہا کہ ’امن سے عرب، اسرائیل تنازع کے خاتمے میں مدد ملے گی‘ (فائل فوٹو: اے پی)
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی ثالثی کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مشرق وسطٰی ’تاریخی امن کے انتہائی قریب‘ ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب ایک ’ڈرامائی پیش رفت‘ کے قریب ہیں جو نہ صرف دونوں ریاستوں کے درمیان امن کو ممکن بنائے گی بلکہ پورے خطے کو تبدیل کرے گی اور ’ایک نیا مشرقِ وسطٰی‘ بنے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’امن سے عرب، اسرائیل تنازع کے خاتمے میں مدد ملے گی، اور دیگر عرب ریاستوں کی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی حوصلہ افزائی ہو گی، اور فلسطینیوں کے ساتھ امن کے امکانات بھی بڑھیں گے۔‘
’اگر کسی معاہدے کو حتمی شکل دی جائے تو یہ ابراہام ایکارڈ کی بنیاد پر بنے گا، جس پر ایک طرف اسرائیل اور دوسری طرف متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان 2020 میں دستخط ہوئے تھے۔‘
نیویارک میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دو دن بعد بات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ ’وہ محسوس کرتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان اسی طرح معاہدہ کرا سکتی ہے جس طرح ٹرمپ انتظامیہ نے ابراہام ایکارڈ میں سہولت فراہم کی تھی۔‘
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ’ابراہام ایکارڈ تاریخ کا ایک محور تھا اور آج ہم اپنے نئے امن شراکت داروں کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہماری قومیں تجارت، توانائی، پانی اور زراعت، آب و ہوا اور دیگر کئی شعبوں میں تعاون کرتی ہیں۔‘
’جی 20 کانفرنس میں امریکی صدر جو بائیڈن، انڈین وزیراعظم نریندر مودی، اور یورپی اور عرب رہنماؤں نے ایک ویژنری کوریڈور کے منصوبوں کا اعلان کیا جو جزیرہ نما عرب اور اسرائیل تک پھیلے گا۔‘

نیتن یاہو کے مطابق ’ایران اپنی فوج پر نمایاں رقم خرچ کر رہا ہے اور اس نے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں کی ہیں‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’یہ کوریڈور انڈیا کو سمندری، ریل روڈ، توانائی کی پائپ لائنوں، فائبر آپٹک کیبلز سے یورپ سے جوڑے گا۔ یہ راہداری سمندری چوکیوں، یا چوک پوائنٹس کو نظرانداز کرے گی، اور دو ارب سے زیادہ افراد کے لیے سامان، مواصلات اور توانائی کی لاگت کو ڈرامائی طور پر کم کرے گی۔‘
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ برسوں میں ہونے والی پیش رفت کو ’رنگ مین بھنگ ڈال کر‘ رد کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایران اپنی فوج پر نمایاں رقم خرچ کر رہا ہے اور اس نے دنیا بھر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں کی ہیں۔‘
’ایران کی جارحیت کو بڑی حد تک بین الاقوامی برادری کی بے حسی سے پورا کیا گیا ہے، اور مغربی طاقتوں کے اس وعدے کے باوجود کہ اگر ایران نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی تو وہ پابندیاں واپس لے لیں گے، ایسا نہیں ہوا۔‘
نیتن یاہو کے مطابق ’ایران معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، لیکن اس کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے پابندیاں دوبارہ عائد نہیں کی گئیں۔ یہ پالیسی تبدیل ہونی چاہیے، پابندیاں لگائی جانی چاہییں۔‘

شیئر: