مملکت میں الجنادریہ فیسٹیول سعودی ثقافت کی پہچان کے لیے شاندار آغاز تھا۔ فوٹو عرب نیوز
سعودی عرب میں نئی تبدیلیوں کے ساتھ روایتی لباس کو اب پہلے سے کہیں زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور یہ مقامی لوگوں کے لیے تحریک اور تعریف دونوں کا ذریعہ بنتا ہے۔
عرب نیوز کے ساتھ انٹرویو میں روایتی عرب ملبوسات اور ٹیکسٹائل ورثے کی پہلی سعودی پروفیسر لیلیٰ البسام نے سعودی ریاست کے قیام کے بعد نجدی فیشن کی ابتدا اور عروج پر بات کی ہے۔
دنیا کی مختلف ثقافتوں میں لباس کی اہمیت نسلوں سے وراثت میں پروان چڑھتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدت کا رنگ بھی ملتا ہے۔
جزیرہ نما عرب کے مرکز میں عربی اور اسلامی ثقافت کے ساتھ منسلک نجدی ملبوسات کی اپنی ایک خاص اور الگ شناخت ہے۔
روایتی نجدی لباس کی خصوصیت اور پہچان اس کے ڈھیلے ڈھالے انداز، ٹخنوں تک کی لمبائی کے ساتھ جاذبی انداز میں آرائشی کڑھائی اور منفرد قسم کی سلائی سے ہوتی ہے۔
لیلیٰ البسام نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ نجد کے علاقے میں بسنے والوں کے پاس خاص قسم کی کڑھائی اور سلائی کے ساتھ منفرد ٹانکے تھے اور ان کے نام بھی دنیا کی دیگر ثقافتوں سے مختلف تھے۔
نجدی فیشن میں خواتین کے کپڑوں کے لیے مشہور فیبرک ڈیزائن میں خاص قسم کے دائرے کے ماڈل اور تانے بانے کے سیاہ یا سبز رنگ ہوتے ہیں۔
خواتین کے لیے تیارکردہ گاؤن کو دق الیرۃ کہا جاتا تھا جس پر سونے کے سکوں کو شامل کیا جاتا تھا، ان میں سلکی کڑھائی والی آستینوں کے ساتھ پیچ ورک کے سٹائل میں سلائی ہوتی۔
1932 میں سعودی عرب کے قیام کے بعد ملبوسات روایتی اور مقامی انداز میں اکثر ہاتھ سے بنائے جاتے تھے۔
تیل کی دریافت (1938) کے بعد چھ سال کے مختصر عرصے میں مقامی خواتین نے ملبوسات کے روایتی انداز میں اپنے ثقافتی ورثے میں جدت لانا شروع کر دی۔
لیلیٰ البسام نے بتایا کہ تیل کی دریافت کے بعد دنیا بھر سے غیر ملکی آنے لگے اور مقامی افراد کے ساتھ گھل مل گئے، خواتین میں تعلیم کا رحجان ہوا اور بیرون ملک سے نئی درآمدات کے ساتھ ملبوسات میں فیشن کی نئی اشکال شامل ہوئیں۔
پروفیسر نے بتایا کہ ریاض کے قریب الجنادریہ فیسٹیول کے آغاز سے روایتی ورثے نے دوبارہ پذیرائی حاصل کی اور پرانی یادوں نے قومی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔
الجنادریہ فیسٹیول کا اہتمام پہلی بار 1985 میں نیشنل گارڈز کی جانب سے کیا گیاجس کے بعد یہ روایات اور رسوم کا جشن بن گیا اور یہ سعودی ثقافت کی پہچان کے لیے شاندار آغاز تھا۔
اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مختلف شعبوں کی جانب سے قومی ورثے کی واپسی کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
وزارت ثقافت کے تحت ہیریٹیج کمیشن کے ذریعے مقامی شناخت کو مضبوط کیا گیا اور اس میں سعودی فیشن کے لیے خاص مقام بنایا گیا۔
قومی تہواروں اور یوم تاسیس کی تقریبات میں روایتی ملبوسات اہم لباس بن گئے۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں