اخبار 24 کے مطابق ایوان شاہی کے مشیراورشاہ سلمان امدادی و فلاحی مرکز کے نگران اعلی ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے بتایا کہ سیامی بچوں کو جدا کرنے کے آپریشن انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں‘۔
‘سعودی عرب میں اس قسم کے آپریشن کے لیے انتہائی جدید ترین آلات استعمال کیے جاتے ہیں جن میں جدید ترین لیزرٹیکنالوجی اورخون کے بہاو کو روکنے کے حساس آلات شامل ہیں‘۔
ڈاکٹر الربیعہ کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے جن ممالک میں اس قسم کے آپریشنز کیے جاتے ہیں ان کی بہ نسبت مملکت میں ہونے والے آپریشنز اس حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں کہ یہاں استعمال ہونے والے آلات جراحی انتہائی حساس اورجدید ترین ہیں جس کی وجہ سے جسم سے خون کم سے کم نکلتا ہے، یا یوں کہیں کہ دیگر ممالک میں ہونے والے آپریشنز کے مقابلے میں خون تین گنا کم نکلتا ہے جس کی وجہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اورٹیم کی مہارت ہے۔
واضح رہے شاہ سلمان امدادی اورانسانی فلاحی مرکز کی جانب سے 1990 سے سیامی بچوں کی علیحدگی کے آپریشنز کا آغاز کیا گیا تھا۔
گزشتہ 33 برسوں میں مرکز کی ٹیموں نے 24 ممالک میں 133 کیسز کا مطالعہ کیا اور58 جڑے ہوئے بچوں کے کامیاب آپریشن کیے مذکورہ تنزانی بچوں کا آپریشن 59 واں ہے۔
بچوں کی والدہ نے آپریشن کی کامیابی کی اطلاع سنتے ہی سجدہ شکرادا کیا۔ اس موقع پروالدین کا کہنا تھا کہ ’ہم مملکت کی اعلی قیادت اورآپریشن کی طبی ٹیم کے لیے تاحیات دعا گو رہیں‘۔
واضح رہے نچلے دھڑ سے جڑے ہوئے تنزانی بچے حسن و حسین کو انکی پیدائش کے بعد اب پہلی بار جدا ، جدا بستروں پرلٹایا گیا۔
آپریشن 16 گھنٹے پرمحیط تھا جو شاہ عبدالعزیز نیشنل گارڈ ہسپتال ریاض میں انجام دیا گیا۔ جدا کیے جانے کے بعد دنوں بچوں کی خصوصی نگرانی کا عمل جاری ہے۔