Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کی ’وطن واپسی‘ لیکن لاہور اتنا سنسان کیوں؟

ماڈل ٹاؤن دفتر میں سیاسی سرگرمیاں چل رہی تھیں لیکن کسی بھی مقام پر مریم نواز کی تصویر موجود نہیں تھی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
21 اکتوبر بروز سنیچر پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے سلسلے میں پنجاب بھر میں پارٹی قیادت متحرک ہے۔
پنجاب کے مختلف علاقوں میں کارنر میٹنگز منعقد ہو رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی لاہور میں بھی جا بجا پارٹی قائدین دورے کر کے اجتماعات منعقد کر رہے ہیں۔ جھنڈوں، بینرز اور پوسٹرز سے لے کر نچلی سطح پر پارٹی رہنماؤں کے لیے فلیکسز بھی بنائے جا رہے ہیں۔ 
لاہور میں اب تک پارٹی قیادت اندرونی سطح پر تو متحرک نظر آ رہی ہے تاہم مجموعی طور پر پارٹی اب تک عوامی سطح پر کُھل کر باہر نہیں نکلی۔ اس حوالے سے اردو نیوز کی ٹیم نے لاہور کے سب سے زیادہ سرگرم حلقوں سمیت مسلم لیگ ن کے مختلف دفاتر کا دورہ کیا اور حالات و واقعات کا جائزہ لیا۔
لاہور میں پاکستان مسلم لیگ انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے جبکہ ایک تیسرا حصہ تاحال غیرفعال ہے۔ ابتدائی تیاریوں سے لے کر ملاقاتیں اور اجلاس ماڈل ٹاؤن سمیت اس کے نواح میں موجود دفاتر میں کیے جاتے ہیں۔ جبکہ اندرون لاہور بشمول گوالمنڈی اور شاہدرہ کو اس وقت پاور شو کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گاہے بگاہے فیروز پور روڈ اور اس کے اردگرد لوگوں کے اجتماعات بھی منعقد ہو رہے ہیں۔
اس وقت سب سے زیادہ سرگرمیاں ماڈل ٹاؤن میں موجود دفتر میں ہو رہی ہیں تاہم اسی علاقے میں موجود یوتھ ونگ کا دفتر غیرفعال معلوم ہوتا ہے۔
ماڈل ٹاؤن دفتر میں پارٹی کے مختلف ونگز کے ساتھ اعلٰی قیادت کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ جمعرات کو مریم نواز کی سربراہی میں پارٹی کی اقلیتی برادری کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ اسی طرح خواتین، نوجوانوں اور پرانے ساتھیوں کے لیے الگ الگ دن اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔ 
ماڈل ٹاؤن میں تقریباً ہر روز کوئی نا کوئی سرگرمی ہو رہی ہوتی ہے۔ پارکنگ لاٹ میں گاڑیوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دفتر کے باہر نواز شریف کو خوش آمدید کہنے کے لیے کئی بینرز آویزاں کیے گئے ہیں۔ دفتر کو جانے والی سڑک پر دونوں جانب جالیوں کو انہی بینرز سے سجایا گیا ہے۔ دفتر کے مرکزی دروازے پر حمزہ شہباز شریف کا لکڑی سے تراشا ہوا ایک مجسمہ رکھا گیا ہے۔ ہر آنے جانے والے کی سب سے پہلے نظر اسی مجسمے پر پڑتی ہے۔

مسلم لیگ ن کے ماڈل ٹاؤن میں واقع دفتر میں چند ملازمین ایک گاڑی میں پارکنگ لاٹ سے اٹھایا کچرا رکھ رہے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

دفتر کے عین سامنے کچھ میڈیا کے نمائندے موجود ہیں جن کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح اندر چلے جائیں لیکن مسلم لیگ ن کے ماڈل ٹاؤن دفتر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کسی میڈیا نمائندے کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ یہ میڈیا نمائندگان انتظار کرتے ہیں کہ شاید مریم نواز یا کوئی اور رہنما باہر نکلے اور ان کا انٹرویو کر لیا جائے لیکن اکثر ایسا بھی نہیں ہو پاتا۔ اردو نیوز کو دفتر کے ایک ملازم نے بتایا کہ پارٹی نے اِس دفتر کے حوالے سے پالیسی نہایت سخت رکھی ہے۔
’ہمیں سختی سے بتایا گیا ہے کہ کسی بھی میڈیا نمائندے کو اندر آنے نہ دیا جائے اور کسی کو اندر ہونے والے پروگرام سے متعلق معلومات بھی نہ دی جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر موجود کوئی بھی ملازم پروگرام کا ایجنڈا یا پروگرام میں شریک مہمانوں کی تفصیل فراہم نہیں کر سکتا۔
میڈیا نمائندگان کے علاوہ کچھ مخصوص لوگ یہاں باآسانی داخل ہو رہے تھے جنہوں نے گلے میں کارڈ پہن رکھے تھے۔ ان کو دروازے پر کھڑا ایک شخص خوش آمدید کہتا ہے اور ہال کی نشاندہی کر کے آگے روانہ کر دیتا ہے لیکن جب بھی میڈیا سے تعلق رکھنے والا کوئی نمائندہ ان کے پاس معلومات لینے جائے تو ان کے تیور یکسر بدل جاتے ہیں۔ وہ نہایت سخت لہجے میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے اس طرح برتاؤ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا وہ نہیں چاہتے کوئی سیاسی رہنما انہیں میڈیا سے بات کرتے دیکھے۔

ماڈل ٹاؤن دفتر کے مرکزی دروازے پر حمزہ شہباز شریف کا لکڑی سے تراشا ہوا ایک مجسمہ رکھا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: حنا پرویز بٹ ٹوئٹر)

بالآخر میڈیا نمائندگان کو وہاں سے مایوسی ہوتی ہے اور وہ پارکنگ لاٹ کی طرف چلے آتے ہیں۔ دور کہیں چند ملازمین ایک گاڑی میں پارکنگ لاٹ سے اٹھایا کچرا رکھ رہے تھے۔ غالباً حالیہ بارشوں اور طوفان کی وجہ سے درختوں سے جو شاخیں الگ ہو گئیں تھیں انہیں ہٹایا جا رہا تھا۔
ماڈل ٹاؤن دفتر میں سیاسی سرگرمیاں چل رہی تھیں لیکن کسی بھی مقام پر مریم نواز کی تصویر موجود نہیں تھی۔ سیاسی رہنماؤں کا مختصر وقفے کے بعد یہاں آنا جانا چل رہا تھا۔ اس دفتر میں صرف کارکنان کو تحریک دی جا رہی تھی اور اس کے علاوہ علاقوں کی تقسیم کر کے 21 اکتوبر کو لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ٹاسک دیا جا رہا تھا۔
یہاں پارٹی کی دیگر قیادت کے مقابلے میں شریف خاندان کے ممبران ہی تمام تر سیاسی تحریک کا محور تھے۔ تاہم ماڈل ٹاؤن کے اکثر مقامات ن لیگ کے جھنڈوں اور بینرز سے محروم تھے۔ کسی بھی مقام پر ن لیگ کی سرگرمی نظر نہیں آ رہی تھی جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ فی الوقت تمام تر سرگرمیاں اندرونی سطح تک محدود ہے اور ن لیگ عوام میں آنے کی تیاری ابھی کر رہی ہے۔
آنے والے سیاسی سرگرمیوں کے لیے دوسرا متحرک حصہ ن لیگ لاہور کا ضلعی مرکزی دفتر ہے جو گلبرک میں واقع ہے جہاں اس وقت کوئی خاص عوامی سرگرمی نہیں ہو رہی لیکن پارٹی کی تمام تر انتظامی معاملات اسی دفتر میں طے ہوتے ہیں۔

ماڈل ٹاؤن میں تقریباً روز ہونے والی سرگرمیوں کی وجہ سے پارکنگ لاٹ میں گاڑیوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

یہاں مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کے بجائے مسلم لیگ ن لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر اور جنرل سیکریٹری خواجہ عمران نذیر متحرک ہوتے ہیں۔ اس دفتر میں حافظ ایوب نامی پرانے لیگی بھی موجود ہوتے ہیں جس کے حوالے سے ضلعی دفتر کے سیکریٹری زرین خان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک بھر میں پارٹی کے جھنڈے فراہم کرتے ہیں۔
زرین خان نے بتایا کہ ’حافظ ایوب پورے ملک میں مسلم لیگ ن کی تقریبات اور جلسے جلوس کے لیے جھنڈے فراہم کرتے ہیں اور حالیہ سرگرمیوں کے لیے بھی انہیں ٹاسک دیا گیا ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے ضلع دفتر میں سابق میئر لاہور کرنل (ر) مبشر جاوید موجود ہوتے ہیں جن کو 21 اکتوبر کے لیے پارٹی نے لاہور سے کوارڈینیٹر مقرر کیا ہے۔ وہ دفتر میں حافظ ایوب کی طرف سے ڈیزائن کیے گئے جھنڈوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ جھنڈے کا ڈیزائن دیکھنے کے بعد انہوں نے تصویریں بنائیں اور اُسی وقت مریم نواز کو ارسال کر دیں۔
کرنل (ر) مبشر جاوید کے ہاتھ میں ڈھیر ساری فائلیں تھیں جن میں لاہور ریجن کے علاوہ دیگر علاقوں کے لیگی کارکنان اور کوارڈینیٹرز کے رابطہ نمبرز تھے۔ وہ وقت ملتے ہی ان تمام کارکنان سے رابطہ کرتے ہیں اور لاہور میں ہونے والی تیاریوں کا احوال معلوم کرتے ہیں۔

سابق میئر لاہور کرنل (ر) مبشر جاوید دفتر میں حافظ ایوب کی طرف سے ڈیزائن کیے گئے جھنڈوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ن لیگ کے سابق میئر لاہور نے کہا کہ ’ن لیگ کا یہ واحد دفتر ہے جو ورکرز نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہے اور اس کی ملکیت بھی ہمارے پاس ہے۔‘
لاہور میں آنے والی تقریبات کے حوالے سے کرنل (ر) مبشر جاوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اندرونی سطح پر تمام تر تیاریاں مکمل ہو گئیں ہیں۔ ہماری تیاریوں کے نتائج بھی سامنے ہیں کہ حمزہ شہباز بھی لوگوں سے مل رہے ہیں، اس طرح تمام ایم پی ایز اپنے حلقوں میں ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ کوئی کمی نہ رہے۔‘
لاہور میں چونکہ تمام تر سرگرمیاں دفتری حدود تک محدود ہیں اس لیے لاہور بھر میں صرف فیروز پور روڈ پر دو بینرز آویزاں ہیں جن پر سیف الملکوک کھوکھر سمیت دیگر قائدین کی تصویریں لگی ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور بھر میں کہیں بھی کوئی جھنڈا یا بینرز نہیں لگے۔ اس حوالے سے مبشر جاوید کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ہر چیز کی منصوبہ بندی کی ہے، ایک ہفتے کے بعد پورے لاہور میں ن لیگ کے جھنڈے لگ جائیں گے اور سیاسی رنگا رنگی دکھائی دے گی۔‘
لاہور کی تمام مرکزی شاہراہیں کسی بھی سیاسی سرگرمی کے حوالے سے خاموش ہیں۔ کنال روڈ پر کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں استحکام پاکستان پارٹی کے چند جھنڈے آج بھی موجود ہیں تاہم فیروز پور روڈ، لبرٹی چوک اور مسلم ٹاؤن سمیت دیگر شاہراوں کو ہر قسم کی سیاسی علامات سے خالی کر دیا گیا ہے جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ مسلم لیگ ن کی نئی تحریک کے لیے جگہ خالی کروائی گئی ہے کیونکہ اس سے قبل کلمہ چوک فلائی اوور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے ایک ساتھ موجود تھے جو اب وہاں دکھائی نہیں دے رہے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 اکتوبر کو نواز شریف وطن واپسی پر مینار پاکستان میں جلسہ کریں گے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اس حوالے سے کرنل (ر) مبشر جاوید نے نے کہا کہ مرکزی شاہراہوں کےعلاوہ لاہور کے مضافات بھی ہیں جہاں ایم پی ایز حضرات نے اپنے گلی محلوں میں چاروں طرف کارروائی شروع کر دی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ جھنڈے اور بینرز کے طریقہ کار سے نالاں بھی نظر آئے اور اسے مصنوعی سیاسی مہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کے دور سے یہ کلچر شروع ہوا تھا، جہاں پوسٹرز زیادہ ہوتے تو تاثر قائم کیا جاتا کہ وہاں اُس مخصوص پارٹی کا سیاسی وزن زیادہ ہے جبکہ پوسٹرز کم ہونے کی صورت میں دعویٰ کیا جاتا کہ فلاں پارٹی کے لوگ سو رہے ہیں۔‘
’مسلم لیگ کی مہم میں کارکن ذاتی طور پر بھی خرچہ کرتے ہیں لیکن اب مہنگائی زیادہ ہو گئی ہے۔ لہٰذا ہم تو درخواست کریں گے کہ اس مصنوعی سیاسی مہم کو کم سے کم رکھا جائے۔‘
کرنل (ر) مبشر جاوید کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ ماضی میں ن لیگ کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور تحریک انصاف کی کامیابیوں کا اقرار کر رہے ہیں۔
’یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے تین صوبائی اسمبلی کے حلقے ہارے تھے کیونکہ عمران خان کے سحر میں غیر فطری طور پر لوگ مبتلا ہو گئے تھے۔‘
ان کے مطابق ’عمران خان نے عوام کو سبز باغ دکھائے تھے لیکن نواز شریف کے آنے سے وہ سب سچ ہو گا، ان کے لیے ہر حلقے کے لوگ نکلیں گے اور ایک نیا سیاسی سفر شروع ہو گا۔‘

کرنل (ر) مبشر جاوید نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عوام کو سبز باغ دکھائے۔ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے پارٹی میں اندرونی اختلافات کے حوالے سے تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے لیکن پھر بھی نواز شریف آئیں گے، ایسی کوئی بات فی الوقت پارٹی میں نہیں چل رہی۔‘
انتظامی حوالوں سے تیسرا حصہ اندرون لاہور کا ہے اور اس میں بھی نواز شریف کے حلقے گوالمنڈی کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
ن لیگ کے ان دونوں دفاتر میں اندرونی طور پر تیاریاں تو ہو رہی تھیں لیکن گوالمنڈی سمیت اندرون لاہور میں موجود ن لیگ کے اکثر دفاتر غیرفعالیت کی علامت بنے ہوئے تھے۔
گوالمنڈی کے مقامی لوگ ن لیگ سے ناراض نظر آئے۔ اللہ رکھا نامی شخص کی پیدائش گوالمنڈی میں ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے جنرل ایوب اور فاطمہ جناح کو الیکشن لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف آئے یا واپس جائے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، ہر سیاسی نمائندہ کھانے کے لیے آتا ہے اور ڈکار لینے بیرون ملک چلا جاتا ہے۔‘
جب اُن سے ن لیگ کے دفتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دیال سنگھ کالج کے عقبی گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ سامنے نالے کے ساتھ ہی سیدھا جائیں وہاں ایک دکان کو دفتر بنایا گیا ہے لیکن وہاں کوئی ہوتا نہیں۔‘
یہ دفتر اگلی کے اندر واقع ہے جہاں راستے پر ترقیاتی کام چل رہا تھا تاہم اہل علاقہ کے مطابق یہ کام سالوں سے چلتا آ رہا ہے۔

زرین خان نے بتایا کہ ’حافظ ایوب پورے ملک میں مسلم لیگ ن کی تقریبات اور جلسے جلوس کے لیے جھنڈے فراہم کرتے ہیں۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

ن لیگ کا دفتر ایک دکان نما کمرے پر مشتمل تھا، شٹر نیچے تھا اور داخلی دروازہ کچھ یوں بند تھا کہ گویا علامتی طور پر فعالیت کی منظر کشی مقصود ہو۔ 
یہاں سے آگے گوالمنڈی کی فوڈ سٹریٹ اور دیگر علاقوں میں بھی لوگ اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ فوڈ سٹریٹ کی سڑک طویل نہیں تھی لیکن اس پر سفر کرنا دشوار ضرور تھا۔ کوئی گاڑی یہاں سے باآسانی گزر نہیں سکتی، اندیشہ ہوا کہ اگر نواز شریف کسی دن یہاں دورے پر آئے تو شاید انہیں مظاہرین کا سامنا کرنا پڑے۔ یہاں بھی کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہو رہی تھی اور نہ ہی کوئی بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 اکتوبر کو نواز شریف وطن واپسی پر مینار پاکستان میں جلسہ کریں گے۔ مینار پاکستان کے گرد و نواح میں تو کوئی سیاسی سرگرمی قطعی طور پر نہیں ہو رہی تھی تاہم ہوٹل مالکان ضرور خوش نظر آئے۔
مینار پاکستان کے قریب واقع سوات ہوٹل کے مالک جلات خان نے بتایا کہ ’یہاں اکثر تقریبات منعقد ہوتیں ہیں لیکن امید ہے کہ نواز شریف کے آنے سے ایک دو دن ہوٹل پر زیادہ رش ہو گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس علاقے میں زیادہ تر لوگ ایسی تقریبات کو کاروبار کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے یہاں کم از کم مقامی سطح پر لوگ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ شامل نہیں ہوتے۔‘
مجموعی طور پر لاہور میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن انتظامی طور پر تیار ہو چکی ہے جبکہ عوامی سطح پر بھی مختلف ’ٹیسٹ‘ کیے جا رہے ہیں تاہم لاہور کی سڑکیں اور چوراہیں اب بھی سنسان ہیں۔
اس حوالے سے ن لیگ کا یہی مؤقف ہے کہ آنے والے چند دنوں میں لاہور میں تمام تر سرگرمیوں کا رخ عوامی سطح پر کر دیا جائے گا۔

شیئر: