اس پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی وسیم احمد خان اور ڈی پی او سیالکوٹ محمد حسن اقبال بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’11 اکتوبر کی صبح سیالکوٹ کی مسجد میں دہشت گردوں نے کچھ افراد کو شہید کیا، پنجاب پولیس نے شواہد اکٹھے کر کے ملزمان کا تعاقب شروع کیا۔‘
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ ’جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ہوٹل آئی، فیس ٹریس سمیت دیگر سافٹ وئیرز اور تفتیشی ٹیموں کی ان تھک محنت سے 24 گھنٹوں کے اندر ملزمان کو ٹریس کر کے گرفتار کر لیا گیا۔‘
تاہم انہوں نے گرفتار ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’سیالکوٹ کے علاوہ لاہور، قصور اور پاکپتن پولیس کی ٹیموں نے انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ واقعہ میں ملوث تمام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جلد دنیا کے سامنے بے نقاب کریں گے۔‘
آئی پنجاب نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ایک ملک اور اس کی بدنام زمانہ انٹیلیجنس ایجنسی نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی سرانجام دی۔ بیرون ملک سے ہی دہشت گردوں کو معاونت فراہم کی جا رہی تھی، پولیس تمام شواہد کو عدالتوں میں پیش کرے گی۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ کچھ عرصے بعد ایک بڑی پریس کانفرنس میں ان ملزمان کی شناخت بھی ظاہر کی جائے گی اور پاکستان ریاستی سطح پر اس ملک اور خفیہ ایجنسی کو بے نقاب کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی ریاست پر پہلے بھی دہشت گردانہ حملے ہوتے رہے، جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ پاکستانی حکومت دہشت گردی کے اس منظم واقعہ کے اصل حقائق پوری دنیا کے سامنے پیش کر دے گی۔‘
خیال رہے کہ پولیس کے مطابق 11 اکتوبر کو سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کی ایک مسجد میں نامعلوم حملہ آوروں نے صبح فجر کے وقت مولانا شاہد لطیف کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
پولیس کی جانب سے درج مقدمے میں مسجد نور میں میں پیش آنے والے واقعے کی مزید تفصیل میں کہا گیا کہ 11 اکتوبر کی صبح تین نامعلوم نوجوان جن کی عمریں 20 سے 22 سال کے درمیان تھیں، مسجد میں نماز ادا کرنے کی غرض سے داخل ہوئے۔
پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’جیسے ہی مسجد میں موجود افراد نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تینوں ملزمان نے فائرنگ کر دی جس سے مولانا شاہد لطیف کے علاوہ مولانا عبدالاحد اور ہاشم نامی افراد زخمی ہو گئے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق مولانا شاہد لطیف نے موقع پر ہی دم توڑ دیا جبکہ باقی دو زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا تھا جہاں ہاشم نامی زخمی کا بھی انتقال ہو گیا۔
کیا انڈیا ملوث ہو سکتا ہے؟
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اپنی پریس کانفرنس میں کسی ملک کا نام تو نہیں لیا البتہ ان کی باتوں سے یہ صاف عیاں تھا کہ وہ نام لیے بغیر انڈیا کو اس قتل کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ کیونکہ مولانا شاہد لطیف کا شمار ان افراد کی فہرست میں ہوتا ہے جو انڈیا کو مطلوب ہیں۔
انڈین میڈیا نے اس خبر کو نمایاں جگہ دی اور دعویٰ کیا کہ پٹھان کوٹ حملے میں انڈیا کو مطلوب شاہد لطیف کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں انڈیا کو کینیڈا کے ساتھ سفارتی جنگ کا سامنا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا نے الزام عائد کیا کہ ان کی سرزمین پر ہردیپ سنگھ نجر نامی سکھ رہنما کے قتل میں انڈیا ملوث ہو سکتا ہے۔
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے پارلیمنٹ میں اس بیان کے بعد سے انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سفارتی سطح پر کشدیگی پائی جاتی ہے، جبکہ دوسری پاکستان میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں رواں برس مئی میں ایک سردار سنگھ نامی سکھ کو نامعلوم افراد نے قتل کیا جبکہ انڈین میڈیا نے اس وقت بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان میں خالصتان تحریک کا ایک رہنما قتل ہوا ہے۔
دو برس پہلے اسی علاقے میں حافظ سعید کی رہائش گاہ کے باہر کار بم دھماکہ بھی ہوا تھا جس کے ملزمان کو پولیس نے بعد ازاں گرفتار بھی کر لیا۔ ان واقعات میں صرف ایک ہی کنکشن ہے کہ یہ واقعات ان افراد کے ساتھ ہوئے ہیں جو انڈیا کے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ کینیڈا میں قتل ہونے والے ہردیپ سنگھ نجر بھی انڈیا کو مطلوب تھے۔