Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیکنڈ ہینڈ سمارٹ فون ٹیکس دیے بغیر کیسے استعمال ہو رہے ہیں؟

ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے سمارٹ فون صارفین مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ فائل فوٹو: پکسابے
پاکستان میں درآمد شدہ سمارٹ فونز کو جب سے پی ٹی اے سے منظور کرانے پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے تب سے ان سمارٹ فونز کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب وہ لوگ ہی سمارٹ فون خرید سکتے ہیں جن کی آمدن اچھی ہے۔
دوسری طرف مارکیٹ میں ایسے بہت سے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جو اگرچہ قانونی طور پر درست نہیں مگر لوگ اس طریقے سے پی ٹی اے سے سمارٹ فون اپروو کروانے کے جھنجٹ اور ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔
محمد منیر (فرضی نام) کا تعلق لاہور سے ہے انہوں نے حال ہی میں کیٹیگری اے کا سمارٹ فون خریدا ہے۔ لیکن ان کو یہ فون خاصی کم قیمت پر ملا ہے۔
انہوں نے سستا سمارٹ فون خریدنے کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے لاکھ روپے سے زیادہ کا فون لینا تھا اور مارکیٹ میں نئے سمارٹ فون کی قیمت ایک لاکھ 80 ہزار روپے تھی جبکہ سیکنڈ ہینڈ کی قیمت بھی ایک لاکھ روپے سے اوپر ہی تھی۔ اور پھر پی ٹی اے سے اس کی تصدیق کروانے کے لیے الگ سے فیس ادا کرنا پڑتی۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ میں نان پی ٹی اے سمارٹ فون خرید لوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میرے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ مجھے سرے سے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ای ایم آئی نمبر تبدیل کروانا درست ہو گا یا نہیں۔ فون کے کھلنے کا بھی اندیشہ تھا۔ دوسری صورت میں مجھے اس فون کا پچاس ہزار روپے پی ٹی اے ٹیکس دو مہینے کے اندر ا ادا کرنا تھا۔‘
محمد منیر کے مطابق ’دوست نے مجھے نان پی ٹی اے اپرووڈ موبائل فون خریدنے پر راضی کر لیا اور ہال روڈ پر اس نے کسی جاننے والے کو میرا فون دیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ایک چھوٹے سادہ فون کی قیمت اور مزدوری دونوں ملا کر چھ ہزار روپے میں ای ایم آئی نمبر تبدیل ہو جائے گا۔ ایک دن کے بعد مجھے فون مل گیا اور یہ اب ٹھیک کام کر رہا ہے۔
یہ کہانی صرف منیر کی ہی نہیں بلکہ ایسے کئی لوگ ہیں جو یہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے کسی چھوٹے فون کا ای ایم آئی نمبر اپنے بڑے فون پر استعمال کر رہے ہیں اور یوں وہ ٹیکس ادا کرنے سے بچ جاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی لاہور کے شہری محمد عرفان بھی بتاتے ہیں جنہوں نے ہواوے کا فون خریدا اور اسی طریقے سے اس کا ای ایم آئی نمبر تبدیل کروایا اور وہ اب اسے استعمال کر رہے ہیں۔

پی ٹی اے کے ترجمان کے مطابق کسی بھی فون کا ای ایم آئی نمبر تبدیل کرنا غیر قانونی ہے۔ فائل فوٹو: پکسابے

لاہور میں موبائل فونز کی سب سے بڑی مارکیٹ حفیظ سینٹر میں میں کئی برسوں سے کاروبار کرنے والے حمزہ بٹ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ای ایم آئی نمبرز کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں۔ ’یہ حربہ تو اس وقت سے استعمال کیا جا رہا ہے جب سے موبائل فونز پر ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں۔ اس کے لیے اصطلاح فون کو ’پیچ‘ لگوانا استعمال ہوتی ہے اور یہ کام سرعام نہیں ہوتا۔ آپ نے اگر ایسے ہی مارکیٹ میں جا کر کہا کہ آپ کو اپنے موبائل فون کا ای ایم آئی نمبر تبدیل کروانا ہے تو کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔
حمزہ بٹ بتاتے ہیں کہ ’فون کے ’پیچ‘ لگانے والے صرف اپنے بھروسے والے لوگوں کا کام کرتے ہیں، اس کی وجہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے کی ٹیموں کا متحرک رہنا ہے۔ کچھ لوگ پکڑے بھی گئے ہیں جنہوں نے ای ایم آئی نمبر ٹیمپر کیے تھے۔ تاہم یہ کام اب ماضی کی نسبت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں موبائل فون کمیونیکیشن کے ریگولیٹر ادارے پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ ’وہ ایسے افراد کے خلاف انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کر رہے ہیں جو غیر قانونی طور پر ای ایم آئی نمبر تبدیل کرتے ہیں۔
پی ٹی اے کے ترجمان کے مطابق کسی بھی فون کا ای ایم آئی نمبر تبدیل کرنا غیر قانونی ہے اور ٹیکس چوری کرنا تو اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ ’ہمارے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہیں جن میں ان لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ مہینے ایسے ہی ایک انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ’پیچ‘ کے ذریعے صرف اینڈرائیڈ فونز کے ای ایم آئی نمبرز ہی تبدیل کیے جا سکتے ہیں آئی فونز میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔

شیئر: