Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی نوجوانوں اور خواتین قیدیوں کی رہائی پر اہل خانہ کا جشن

اسرائیلی قید سے رہا ہونے والوں میں 15 نوجوان اور 24 خواتین شامل ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کا مغربی کنارے میں پُرجوش استقبال کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فلسطینی شہریوں نے ایک بڑے جلوس کی صورت میں رہا ہونے والے قیدیوں کو خوش آمدید کہا۔
اس موقع پر مغربی کنارے میں جشن کا سماں تھا جہاں فلسطینی شہری نعرے بازی کرتے، تالیاں بجاتے اور ہاتھ لہرا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔
سلیٹی رنگ کے قیدیوں کے یونیفارم میں ملبوس 15 نوجوانوں کو کندھوں پر اٹھائے شہر کی روشن گلیوں میں گھمایا گیا جہاں فلسطینی پاپ میوزک اونچی آواز میں گونج رہا تھا اور آتش بازی نے آسمان پر مختلف رنگ بکھیرے ہوئے تھے۔
رہائی پانے والوں میں سے چند نوجوان فلسطینی جھنڈے میں لپٹے ہوئے نظر آئے جبکہ دیگر نے حماس کا سبز رنگ کا پرچم لپیٹا ہوا تھا اور فتح کا نشان بنائے ہاتھ لہراتے ہوئے پُرجوش ہجوم میں سے گزر رہے تھے۔
اسرائیلی قید سے رہا ہونے والے 17 سالہ جمال براہما نے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا۔‘
ان کے والد خلیل براہما نے اپنے بیٹے کو کندھوں پر اٹھا رکھا تھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جلیل براہما کو نیچے اتارتے ہوئے والد نے سات ماہ بعد اپنے بیٹے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔

چند خواتین کو سوشل میڈیا پر اکسانے کے الزام میں قید کیا گیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

گزشتہ سال اسرائیلی فوجیوں نے جمال براہما کو فلسطینی شہر جیریچو سے بغیر کسی الزام اور مقدمے کے گرفتار کیا تھا۔
خلیل براہما نے کہا ’میں بس دوبارہ اس کا باپ بننا چاہتا ہوں۔‘
غزہ میں حماس کی جانب سے بنائے گئے یرغمالیوں میں سے چند افراد کی رہائی کے کچھ گھنٹوں بعد اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا۔ 
اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت حماس کم از کم 50 یرغمالی جبکہ اسرائیل 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اگرچہ اسرائیلی سرحد کے قریب واقع بیتونیا کے شہر میں جشن کا سماں تھا لیکن شہریوں میں پھر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
اسرائیلی حکومت نے پولیس کو جشن کی تقریبات بند کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ایک موقعے پر سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کا شیل بھی ہجوم پر پھینکا۔
مایا فوقاہا نے رہا ہونے والی اپنی 18سالہ دوست نور الطاہر کو گلے لگاتے ہوئے کہا، ’فوج ہم سے یہ لمحہ چھیننا چاہتی ہے لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے۔ یہ ہماری فتح کا دن ہے۔‘
اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والوں میں 24 خواتین بھی شامل ہیں جن میں سے کچھ اسرائیلی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے الزام میں سزا کاٹ رہی تھیں۔ جبکہ کچھ کو سوشل میڈیا پر اکسانے کے الزام میں قید کیا تھا۔
رہا ہونے والے 15 نوجوانوں میں سے اکثریت پر پتھراؤ  کرنے اور دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے جو اسرائیل فلسطینی نوجوانوں پر کریک ڈاؤن کی غرض سے بھی عائد کرتا ہے۔
49 دنوں سے جاری جنگ کے بعد قیدیوں کا تبادلہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔

قیدیوں کی رہائی پر مغربی کنارے میں جشن کا سماں تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے اہلکار عبدالقادر خطیب جن کے 17 سالہ بیٹے کو بغیر کسی الزام اور مقدمہ چلائے انتظامی حراست میں رکھا گیا تھا، نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’بطور فلسطینی میرا دل غزہ میں اپنے بھائیوں کے لیے ٹوٹا ہوا ہے، اس لیے میں جشن نہیں منا سکتا، لیکن میں ایک باپ ہوں اور اندر سے بہت خوش ہوں۔‘
اسرائیل نے دو ہزار 200 فلسطینیوں کو انتظامی حراست میں رکھا ہوا ہے جو اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
تقریباً ہر فلسطینی کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار اسرائیلی جیل میں بند ہے اور یا وہ خود قید میں کچھ عرصہ گزار چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1967 میں مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سات لاکھ 50 ہزار فلسطینی اسرائیل کی قید میں رہ چکے ہیں۔
اسرائیل ان قیدیوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ فلسطین کی نظر میں یہ جنگی قیدی ہیں اور پبلک فنڈز کا ایک بڑا حصہ ان قیدیوں کی حمایت اور اہل خانہ کی دیکھ بھال پر لگایا جاتا ہے۔

شیئر: