Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب پولیس کا پہلا اینیمل ریسکیو سینٹر، ’بے زبانوں پر تشدد برداشت نہیں‘

پولیس کے ترجمان کے مطابق اینیمل ریسکیو سینٹرز کا دائرہ کار صوبہ بھر میں پھیلایا جا رہا ہے(فوٹو: اردو نیوز)
پنجاب پولیس نے گذشتہ برس جانوروں کو ریسکیو کرنے کے لیے لاہور میں نہ صرف پہلا ریسکیو مرکز بنایا بلکہ انہیں ریسکیو کرنے کے لیے فعال کردار ادا بھی ادا کیا۔
پنجاب پولیس نے یکم جنوری کو بیان جاری کرتے ہوئے ایک میڈیا ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر کو سال 2023 کے بہترین اقدامات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔‘
پولیس کے ترجمان کے مطابق ’پنجاب پولیس نے لاہور میں لاوارث جانوروں کے تحفظ اور ان کے علاج معالجے کے لیے پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر قائم کیا جس کے بعد اس کا دائرہ کار صوبہ بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔‘
’پنجاب پولیس کی طرف سے لاہور کے بعد گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں بھی ایسے ریسکیو سینٹرز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں اب تک سینکڑوں بے زبان جانوروں کا علاج معالجہ کیا جا چکا ہے۔‘
انہوں نے جانوروں کے تحفظ کے ایکٹ 1890 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ایکٹ کے تحت جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی پر متعدد مقدمات بھی درج کیے جا چکے ہیں۔‘

جانوروں کے تحفظ کے ایکٹ 1890 کے تحت سینٹر کا پہلا مقدمہ

گذشتہ برس ستمبر کے اواخر میں پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر اُس وقت خبروں کی زینت بنا جب جانوروں کے تحفظ کے ایکٹ 1890 کے تحت سینٹر نے اپنا پہلا مقدمہ درج کیا۔
اینیمل ریسکیو سینٹر کو اطلاع ملی کہ لاہور کے ٹاؤن شپ میں محمد شکیل نامی شہری نے اپنے گھر کی چھت پر جانوروں کو بری حالت میں رکھا ہوا ہے۔ اس پر پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تمام جانوروں کو ریسکیو کر لیا اور ملزم کے خلاف جانوروں پر تشدد کی روک تھام کے ایکٹ 1890 کے تحت پہلی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر کے انچارج شعیب عباس نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ملزم کے گھر کی چھت پر ایک خرگوش، دو بطخیں، 12 مرغیاں اور 8 چکور پائے گئے جو مناسب خوراک نہ ملنے پر کمزور ہو گئے تھے۔‘
’ہم جب اطلاع ملنے پر وہاں پہنچے تو ان جانوروں کی حالت بہت خراب تھی۔ انہیں خوراک بھی درست طور پر نہیں دی جا رہی تھی جس کی وجہ سے وہ دم توڑ رہے تھے اور ان کا گوشت دیگر جانور کھا رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر کے اہلکار افضل علی کو مطلع کیا کہ ٹاؤن شپ بی بلاک میں ایک ایسا گھر ہے جس کی چھت پر پالتو جانوروں کو لاغر حالت میں رکھا گیا ہے۔
'ہمیں اطلاع ملی کہ چھت پر موجود زندہ جانور مرے ہوئے جانوروں کا گوشت کھا رہے ہیں۔ ہم نے متعلقہ شکایت کنندہ سے ثبوت مانگے تو اُس نے ویڈیوز بھیجیں۔ اسی وقت ہم نے جانوروں پر تشدد کی روک تھام کے ایکٹ 1890 کا مطالعہ شروع کیا تاکہ ہم اِس شخص کے خلاف کارروائی کر سکیں۔‘
شعیب عباس کے بقول انہوں نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی سے رابطہ کیا اور اُن سے سرچ وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی۔ ’ہماری ٹیم ایس ایچ او ٹاؤن شپ کی ٹیم کے ہمراہ اُس گھر پر پہنچی تو جانور بہت بری حالت میں تھے۔‘
ان کے مطابق اس آپریشن کی قیادت عروسہ حسین کر رہی تھیں۔ ان جانوروں میں سے بہت سوں کو شیلٹر ہوم پہنچایا گیا جبکہ ایک خرگوش کو ہمارے پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر لایا گیا۔
اس کے بعد شکیل نامی شہری کے خلاف انچارج پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر عروسہ حسین کی مدعیت میں تھانہ ٹاؤن شپ میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

اگست 2023 میں لاہور کے علاقے اچھرہ میں ایک کنال اراضی پر اینیمل ریسکیو سینٹر قائم کیا گیا (فوٹو: اردو نیوز)

ایف آئی آر کے متن کے مطابق شکیل نامی رہائشی نے گھر کی چھت پر پرندے اور جانور رکھے ہوئے تھے۔ شکایت پر پرندوں اور جانوروں کا معائنہ کیا گیا تو ان کی حالت بہت زیادہ خراب تھی۔
مقدمے کے مطابق شہری کی چھت پر مردہ جانوروں کی ہڈیاں اور باقیات ملیں، جو دوسرے پرندے اور جانور کھا رہے تھے جب کہ مالک نے پرندوں اور جانوروں کے کھانے پینے کے مناسب انتظامات بھی نہیں کیے تھے۔
شعیب عباس کا کہنا تھا کہ ’بے زبانوں پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں ہو سکتا۔ پولیس اینیمل ریسیکو سینٹر کے قیام کا مقصد بے زبان خلقِ خدا کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ملک بھر میں نہیں تو لاہور میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایف آئی آر ہے۔ ہمارے سینٹر کی جانب سے اس قانون کے تحت درج کیا جانے والا یہ پہلا مقدمہ ہے۔‘
انچارج پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر نے مزید بتایا کہ ’ملزم کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ سیکشن پانچ کے مطابق زیادہ سے زیادہ تین لاکھ اور کم از کم 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے جبکہ چھ ماہ جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔ عدالت ملزم کو دونوں یا کوئی ایک سزا سنا سکتی ہے۔‘
’یہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے اور آنے والے دنوں میں ہمارا سینٹر مزید کارروائیاں کرے گا۔‘

جانوروں پر تشدد کی روک تھام کا قانون کیا ہے؟

جانوروں پر تشدد کی روک تھام کا ایکٹ 1890 دراصل برطانوی دور حکومت کا جانوروں پر ظلم و ستم کی روک تھام کا قانون ہے جو 1990 میں پاکستان پینل کوڈ میں شامل کیا گیا۔
اس قانون کے تحت ’کسی بھی پالتو جانور کو اگر کوئی شخص مارے گا یا اس پر تشدد کرے گا تو اس کی سزا ایک ماہ قید ہے اور اگر ملزم نے دوسری بار جانور کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا تو سزا تین سال تک ہو سکتی ہے۔‘
اس قانون کے تحت جانوروں کی لڑائی کروانا یا کسی جانور کی کھال خریدنا یا اپنے پاس رکھنا جو تشدد کر کے مارا گیا ہو، اس پر بھی سزا ہو گی۔
اس ایکٹ کے تحت ملزموں کے خلاف جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں جو ماضی میں کم تھے تاہم 2018 میں سینیٹر کریم خواجہ نے اس قانون میں ترمیم کا بل جمع کروایا جسے ایوان نے منظور کرتے ہوئے جرمانے کی رقم کو کئی گنا بڑھا دیا تھا۔

اینیمل رسیکیو سینٹر میں دو ویٹنری ڈاکٹرز اور ایک اَپریشن تھیٹر موجود ہے (فوٹو: اردو نیوز)

یاد رہے کہ اس سے قبل سندھ میں سور کو پکڑ کر اس پر کتے چھوڑنے سمیت بھینسے کو فائرنگ کر کے مارنے کے خلاف اِسی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر کیا ہے؟

 شعیب عباس کے مطابق 29 اگست 2023 کو لاہور کے علاقے اچھرہ میں ایک کنال اراضی پر اینیمل ریسکیو سینٹر قائم کیا گیا اور اس میں ویٹنری ڈاکٹرز اور محکمہ وائلڈ لائف کے افسروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو دورانِ کارروائی موجود ہوتے ہیں۔
ماضی میں لاہور بھر میں جانوروں کو ریسکیو کرنے کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔
شعیب عباس کے بقول ان سینٹرز میں جانوروں پر تشدد کی رپورٹس درج ہوتی ہیں اور زخمی جانوروں کا علاج کروایا جاتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کے نیچے کتا یا بلی آجائے یا سڑک کنارے کوئی جانور زخمی حالت میں ہو تو ہم ایسے جانوروں کا علاج کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اِس سینٹر میں دو ویٹنری ڈاکٹرز اور ایک اَپریشن تھیٹر موجود ہے جہاں جانوروں کو ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے۔‘
’یہاں مختلف رضاکاروں کو بھی رجسٹر کیا جا رہا ہے۔ ہم نے 31 جانوروں کو ریسکیو کیا ہے۔ 12 ایسے رضاکار بھی رجسٹرڈ ہیں جو ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں۔ پانچ این جی اوز، 14 ریسکیورز، چار شیلٹر ہومز اور دو کلینکس بھی رجسٹرڈ ہی‍ں۔‘
’ہمارے پاس ایک ایمبولینس ہے جو زخمی جانوروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس سینٹر کے ساتھ 10 وکلا بھی رجسٹرڈ ہیں جو جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

شیئر: