قبائلی رہنما اور وفادار رعایا کو اونٹوں کی قیمتی نسلیں تحفے میں دینے کا رواج رہا ہے۔ فوٹو واس
دنیا کے اس خطے کے وسیع صحراؤں میں عرب باشندوں اور اونٹوں کے درمیان رشتہ بھروسے، عزت اور محبت کی ایسی داستان رقم کرتا ہے جو قدیم دور کی یاد دلاتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق صحرائی باشندے جنہیں علاقائی زبان میں ’بدو‘ کہا جاتا ہے جب رزق کی تلاش میں بنجر خطوں کا رخ کرتے تو انہیں اس شاندار مخلوق (اونٹ) سے بڑی حد تک تسلی بخش مدد ملتی۔
اونٹوں نے ان گنت مواقع اور سفر کے دوران صحرائی باشندوں کا وزن اٹھایا، اس کے علاوہ اونٹ کی اہمیت ہر دور کی سرکردہ شخصیات کو تحفے دینے کی عظیم داستانوں میں بھی پنہاں ہے۔
سعودی سوسائٹی فار کیمل سٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد العتیبی کہتے ہیں کہ عربوں اور ان جانوروں کے درمیان گہرا تاریخی تعلق ہے۔
ڈاکٹر العتیبی نے پیغمبر اسلام کی معروف سواری، آپﷺ کی اونٹنی القصواء کے بارے میں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت صالحؑ کی اونٹنی کے بعد یہ دوسرا سب سے مشہور جانور سمجھا جاتا ہے جو عربوں اور مسلمانوں کے لیے عظیم شناخت کے ساتھ یادوں میں نقش ہے۔
ان جانوروں کی اہمیت کا ذکر مقدس کتابوں میں بھی ہے۔ قرآن کریم میں اس مخلوق کے متعدد حوالے ملتے ہیں۔
عرب معاشرے میں اونٹوں کی عزت و تکریم کی وضاحت مختلف احادیث سے بھی ملتی ہے۔
اونٹوں کے ساتھ عرب معاشرے کا گہرا لگاؤ اور ربط بہت سے دیگر انداز و اطوار سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
قدیم زمانے میں عرب باشندے اپنی مقامی زبان میں ایک دوسرے کا بدلہ اتارنے کے طور پر دولت اور اونٹ کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔
کنگ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ہند المطیری بتاتے ہیں کہ اونٹ جسے اکثر ’صحرائی جہاز‘ کہا جاتا ہے، بنجر اور سخت ماحول میں نقل و حرکت، محنت اور بقا کی علامت ہے۔
یہ لازوال مخلوق عرب معاشرے کے لیے لائف لائن کا کام کرتی ہے، اپنے مالکان کو صحرا کے ناقابل یقین حد تک خطرناک مصائب سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔
ڈاکٹر المطیری نے بتایا کہ عرب باشندوں نے اونٹوں کے ساتھ گہرا تعلق استوار کر رکھا ہے جو ان کی صحت، طاقت اور منفرد خصوصیات کا بغور مشاہدہ کرتا ہے۔
المطیری کے مطابق عربوں نے اونٹوں کی لاتعداد خصوصیات کے باعث انہیں بے شمار ناموں سے جانا ہے جیسا کہ بالغ اونٹوں، ریوڑ، مادہ، نر اور چھوٹی عمر کے اونٹوں کو سینکڑوں ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف اونٹوں کو ان کی صحت، وزن، بینائی، دودھ کی پیداوار اور سبک خرامی بھی ممتاز کرتی ہے۔
مختلف معرکوں کے دوران جنگجوؤں کو لے جانے والے یا پیاس سے دوچار اونٹوں کو بھی الگ الگ نام دیے گئے۔
المطیری نے کہا کہ اونٹ سے متعلق اصطلاحات نے عربی زبان کو تقویت بخشی ہے، قدیم شاعری میں اس کا اظہار ملتا ہے۔
عربی شاعری میں طویل عرصے سے اونٹنی کا ذکر ہے، جسے بدوی قبائل بہت زیادہ عزت کا مرتبہ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد العتیبی نے بتایا کہ شاہ عبدالعزیزؒ کو اونٹوں سے گہری محبت تھی اور وہ ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ شاہ عبدالعزیزؒ کی فوج میں یہ مخلوق ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس زمانے میں قبائلی رہنماؤں اور وفادار رعایا کو اونٹوں کی قیمتی نسلیں تحفے میں دینے کا رواج تھا۔
یہ روایات شاہ سعودؒ، شاہ فیصلؒ، شاہ خالدؒ، شاہ فہدؒ اور شاہ عبداللہؒ کے دور میں بھی جاری رہیں۔
سعودی عرب میں منعقد ہونے والا عالمی شہرت یافتہ جنادریہ فیسٹیول ان واقعات میں سے ایک ہے جو اونٹ کے ساتھ تعلق کو ظاہر کرتا ہے، فیسٹیول میں اونٹ ریس کے ساتھ مملکت کے ورثے کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں اونٹ کلب کے قیام اور ان دونوں رہنماؤں کے نام پر تہواروں کے ساتھ ان جانوروں کو اور بھی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں