کیا پی ٹی آئی وکلا نے پارٹی میں روایتی سیاست دانوں کو آؤٹ کلاس کر دیا ہے؟
کیا پی ٹی آئی وکلا نے پارٹی میں روایتی سیاست دانوں کو آؤٹ کلاس کر دیا ہے؟
بدھ 17 جنوری 2024 17:25
ادیب یوسفزئی -اردو نیوز
شعیب شاہین کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کے کئی لوگ انڈر گراؤنڈ ہیں۔ (فوٹو: ایکس)
پاکستان تحریک انصاف کے لیے عمران خان کے جیل جانے کے بعد بطور پارٹی اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ جب انتخابات سر پر آئے اور دیگر قانونی چیلنجز کا سامنا پارٹی کو ہوا تو وکلا نے ہی اسے سہارا دیا۔
نو مئی کے واقعات کے بعد تو پی ٹی آئی کے وکلا بہت زیادہ متحرک ہوئے۔ اس دوران کئی وکلا ایسے بھی منظر عام پر آئے جو آنے والے دنوں میں پارٹی کو سہارا دینے والے سیاستدان بنے۔
چونکہ پاکستان تحریک انصاف کے اکثر رہنما روپوش ہیں یا پھر پارٹی اور سیاست چھوڑ گئے تھے اس لیے بیرسٹر گوہر کو پارٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔
وکیل شیر افضل مروت بھی اسی دوران پارٹی کے ’پاپولسٹ‘ لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور پارٹی کو عوامی سطح پر زندہ رکھنے میں کردار نبھایا۔
وکلا کے اس کردار ہی کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف نے قومی و صوبائی اسمبلی کی کئی ٹکٹیں وکلا کو دی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس بار پی ٹی آئی میں سب سے زیادہ سیاستدان پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں وکلا کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔
اس وقت اگر دیکھا جائے تو عوامی سطح پر شیر افضل مروت پارٹی ہی کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ لاہور کے حلقے این اے 128 کے لیے پارٹی کے امیدوار ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ میڈیا پر پارٹی کے دفاع میں مصروف ہیں۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے روایتی سیاستدان کیوں منظر عام پر نہیں؟ کیا حالیہ انتخابی مہم وکلا ہی چلائیں گے یا روایتی سیاستدانوں کے لیے بھی پارٹی نے کوئی لائحہ عمل طے کر رکھا ہے؟
اس حوالے سے پارٹی کے ترجمان شعیب شاہین نے اُردو نیوز کو بتایا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پارٹی بیانیہ بنانے اور پھیلانے میں وکلا کا بڑا کردار رہا ہے۔
’وکلا نے سیاسی اور قانونی محاذ پر پارٹی کو سہارا دیا ہے اور پارٹی کے نامزد امیدواروں میں صرف وکلا ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دیگر سیاستدان ہیں جنہیں ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔‘
اس وقت لاہور کے اہم ترین حلقوں میں پی ٹی آئی کی جانب سے وکلا کو ٹکٹس جاری کیے گئے ہیں۔
این اے 117 سے استحکام پاکستان پارٹی کے عبدالعلیم خان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ایڈووکیٹ علی اعجاز بٹر ہیں۔
این اے 122 سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ جبکہ این اے 128 سے پی ٹی آئی کے امیدوار ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مشترکہ امیدوار عون چوہدری کا سامنا کر رہے ہیں۔
گوکہ روایتی سیاستدان بھی پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن اس وقت وہ عملا دوسری صف میں ہیں اور وکلا کی سرگرمیاں زیادہ نمایاں طور پر نظر آرہی ہیں۔
شعیب شاہین کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کے کئی لوگ انڈر گراؤنڈ ہیں۔
’ہمارے کئی رہنماؤں پر تشدد ہوا اور کئی اغوا بھی ہوئے۔ اس لیے وہ روایتی سیاستدان سیاسی سرگرمیوں میں کم دکھائی دیتے ہیں لیکن اب بھی بہت سارے سیاستدان پارٹی کے ساتھ ہیں اور اپنی سرگرمیاں بھی کر رہے ہیں۔‘
شعیب شاہین کے مطابق پارٹی میں وکلا اور روایتی سیاستدانوں کا ایک امتزاج ہے۔
’لیکن جونہی یہ ظلم کی کیفیت کم ہو گی تو ہماری اصلی قیادت بھی سامنے آئے گی اور وکلا بھی ان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔‘
پارٹی ترجمان شعیب شاہین نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ پارٹی نے زیادہ تر ٹکٹس وکلا کو جاری کیے ہیں۔ ’دو سے پانچ فیصد وکلا کو ٹکٹس ملے ہیں باقی سارے پولیٹیکل ورکرز ہیں۔‘
سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے بعد پی ٹی آئی امیدوار آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔
تاہم شعیب شاہین کا کہنا ہے ’ہم آزاد الیکشن نہیں لڑ رہے بلکہ ایک لحاظ سے ہم سب پارٹی کے ٹکٹ پر ہی میدان میں اترے ہیں لیکن پارٹی سے انتخابی نشان لے لیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں آزاد حیثیت دی گئی ہے۔‘
اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت کے علاوہ کوئی رہنما انتخابی مہم چلاتا نظر نہیں آرہا۔
اس حوالے سے شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو بھی سیاسی و انتخابی مہم کا حق ہے۔
’الیکشن کمیشن کے مطابق جس طرح انتخابی مہم ہونی ہے ہم نے بھی کرنی ہے۔ ہمارے ورکرز کنونشنز کا آغاز ہوگیا ہے اور ابھی جلسے جلوس بھی کرنے جا رہے ہیں۔‘
’پارٹی میں اختلافات ہیں جو نہیں ہونے چاہیے۔ اگر اختلافات ہیں بھی تو پارٹی کے اندر بدنظمی نہیں پیدا کرنی چاہیے۔ ہم سب کو بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔‘
جب شیر افضل مروت کی سرگرمیوں اور پارٹی کی جانب سے ان کے بارے میں بیانات کا حوالہ دیا گیا تو شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ شیر افضل مروت پارٹی کے ممبر ضرور ہیں لیکن ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔
’شیر افضل مروت سمیت کئی دیگر لوگ بھی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مروت پارٹی کے نائب صدر نہیں ہیں بلکہ ممبر ہیں۔ لیکن پارٹی پالیسی بیان کرنے کے لیے پارٹی نے پانچ ترجمان مقرر کیے ہیں جن میں شیر افضل مروت کا نام نہیں ہے۔‘