ملین ڈالر کا سوال، آگے کیا ہوگا؟ عادل عباسی کا تجزیہ
ملین ڈالر کا سوال، آگے کیا ہوگا؟ عادل عباسی کا تجزیہ
جمعرات 15 فروری 2024 21:41
محمد عادل عباسی
سنگین ترین بے ضابطگیوں اور الزامات کے باوجود پاکستان میں آج تک کسی الیکشن کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ بھلے کوئی مانے یا نہ مانے۔ اب آگے بڑھنے کا موسم ہے۔ انتخابی نتائج کو لے کر خواہشات کا ایک سیل رواں ضرور موجزن ہے مگر اس میں کچھ بھی خلاف روایت اور خلاف معمول نہیں۔
شکست کو بالعموم ہمارے ہاں خوشدلی سے قبول نہیں کیا جاتا مگر ریاست کے نزدیک انتخابات ہار یا جیت کا مقابلہ نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا تعین کرنے کی مشق ہے۔ اس کا نتیجہ مخلوط شکل میں ہمارے سامنے آ گیا ہے لہذا اب اس پارٹی پوزیشن کو احتجاج کے زور پر یا انتخابی عذرداریوں کے فیصلوں سے بدلنے کی امید رکھنا وقت کا ضیاع ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سنگین ترین بے ضابطگیوں اور الزامات کے باوجود پاکستان میں آج تک کسی الیکشن کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا البتہ کچھ مستثنیات کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے مگر اس سے اجتماعی نتیجے پر کوئی اثر پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو حالیہ الیکشن کے نتیجے میں آنے والی ہنگ پارلیمان کوئی سرپرائز نہیں ہے۔ واقفان حال کو یاد ہو گا کہ دو برس قبل عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے بھی پہلے ہی راقم سمیت کچھ دیگر صحافی دوست الیکشن کی صورت میں منقسم مینڈیٹ کا تجزیہ پیش کر رہے تھے۔
یہی خیال کیا جاتا تھا کہ ان ہاؤس تبدیلی کے بعد ایک قومی حکومت آئے گی جو گھمبیر ملکی مسائل کے حل کے لیے قومی ایجنڈا لے کر چلے گی، کیونکہ عمران خان کا تجربہ ناکام ہو گیا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے برس ہی مقتدرہ کو احساس ہو گیا تھا کہ تبدیلی سرکار کے پاس نہ تو کوئی ٹھوس معاشی روڈمیپ ہے اور نہ ہی گورننس کا تجربہ، جبکہ کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے محاذ آرائی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ساڑھے تین برس تک عمران خان حکومت کو مقتدرہ کی مدد اور تعاون حاصل رہا۔
ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب سابق وزیراعظم نے اپنی توپوں کارخ سیاسی حریفوں سے ہٹا کر اداروں کی جانب موڑ دیا اور پاپولر بیانیے سے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ اس میں انہیں مقبولیت تو ملی مگر اقتدار کی سیاست سے مزید دور ہو گئے۔ اس پر طرفہ یہ کہ جاتے جاتے کچھ ایسے معاشی اقدامات کر گئے جو آئی ایم ایف سے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ اس کے اثرات سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا، جس سے بچنے کے لیے پی ڈی ایم حکومت کو اپنا سیاسی سرمایہ جھونکنا پڑا اور اب اس کا خمیازہ الیکشن میں بھگتا۔
گو کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین بطور گروپ سب سے زیادہ نشستیں جیت گئے ہیں لیکن حکومت سازی کے لیے درکار مطلوبہ نمبر سے کم ہیں۔ مزید یہ کہ کسی سے اتحاد بھی نہیں کرنا۔ تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ دو برس کی محاذ آرائی اور اس کے نتیجے میں آئی مشکلات روا رکھ کر پی ٹی آئی کو کیا ملا؟ جبکہ نتائج کم و بیش وہی ہیں جس کی توقع دو برس پہلے سے کی جا رہی تھی۔
ان ہی معروضات کی بنیاد پر راقم نے انتخابات سے پہلے پارٹی پوزیشن کے حوالے سے اپنا اندازہ بتایا تھا جو درست نکلا۔ گذشتہ دنوں جب سیاسی جوڑ توڑ کو لے کر متوقع وزیراعظم کے حوالوں سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا، تو سوشل میڈیا پر اس وقت بھی میری یہی رائے تھی کہ ملک کے آئندہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز ہوں گی۔ باقی گپ شپ ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی پوری قوت سے واپسی کا اندازہ بھی درست ثابت ہوا۔
اس میں میرا کوئی ذاتی کمال ہے اور نہ ہی کسی ایسے انتظام کی خبر بلکہ یہ سب تو نوشتہ دیوار تھا جو وقت آنے پر ظہور پذیر ہوا ہے۔ اب ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آگے کا منظر نامہ کیا ہو گا۔ فی الحال جو حکومتی خاکہ نظر آ رہا ہے وہ ڈھائی برس تک چلتا دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان کے لیے الیکشن نے جو راستہ متعین کیا ہے وہ خیبر پختونخوا کی حکومت اور مرکز میں تعمیری اپوزیشن کا کردار ہے۔ اس کردار کو اگر بخوبی نبھایا گیا تو پی ٹی آئی کو سیاسی مواقعے ملتے رہیں گے۔ اگلے ماہ نوزائدہ حکومت کو آئی ایم ایف قسط کے حصول کے لیے مزید غیرمقبول فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں، جس کا فائدہ پی ٹی آئی اٹھا سکتی ہے۔ مگر موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔ اس کے لیے سسٹم میں رہنا ہو گا۔ لیکن اگر ہٹ دھرمی اور احتجاج پر مبنی سیاست کا راستہ اپنایا گیا تو مزید سختیوں کا سامنا ہو گا۔ کیونکہ فوری طور پر ملک ایک اور الیکشن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس حوالے سے کامیاب الیکشن انعقاد پر آرمی چیف کی جانب سے جاری کیا گیا پیغام اہم ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے عوام نے آئینِ پاکستان پر اپنا مشترکہ اعتماد ظاہر کیا ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں پر فرض ہے کہ وہ سیاسی پختگی اور اتحاد کے ساتھ اس کا جواب دیں۔ قوم کو انتشار کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے مستحکم ہاتھوں اور ’ہیلنگ ٹچ‘ کی ضرورت ہے، پولرائزیشن اور انتشار 25 کروڑ آبادی والے ترقی پسند ملک کے لیے موزوں نہیں ہے۔ تمام جمہوری قوتوں کی نمائندہ حکومت ملک کی متنوع سیاست کو قومی مقصد کے ساتھ بہتر طریقے سے پیش کرے گی۔‘
غور کیا جائے تو اس بیان میں تمام فریقین کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ مگر فی الحال صرف اتنا کہ نگران حکومت، ایس آئی ایف سی اور آئندہ حکومت ایک ہی بات ہے۔