وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے انڈیا کے عام انتخابات سے کچھ ہی پہلے اس قانون کا نفاذ کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ قانون کے نفاذ کے اعلان کے بعد مشرقی ریاست آسام اور جنوب میں واقع ریاست تامل ناڈو میں احتجاج ہوئے تاہم کسی جانی یا املاک کے نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
تامل ناڈو کے شہر چنئی میں پیر کو مظاہرین نے ایک مشعل بردار ریلی نکالی اور اس قانون کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
دوسری جانب آسام میں احتجاج کے دوران نئے قانون کی کاپیاں جلائی گئیں جبکہ ایک مقامی اپوزیشن پارٹی نے منگل کو ریاست گیر ہڑتال کا اعلان بھی کیا۔
آسام میں بہت سے افراد اس قانون کی مخالفت ان خدشات کی بنیاد پر کر رہے کہ اس کے بعد پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے بہت بڑی تعداد ہجرت کر کے انڈیا آ جائے گی۔
نئے قانون میں کیا ہے؟
قبل ازیں انڈیا کے وزیراعظم آفس کے ترجمان نے ایک پیغام میں بتایا تھا کہ ’مودی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔‘
انہوں نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2019 کے انتخابی منشور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ بی جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور کا ایک لازمی جزو تھا۔ یہ انڈیا میں مظلوموں کے لیے شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔‘
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ قانون پناہ گزینوں کے لیے شہریت کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹوں کو دور کرے گا اور ان افراد کو باوقار زندگی دے گا جو دہائیوں سے مشکلات کا شکار ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں اور کورونا کی وبا کی وجہ سے اس کے نفاذ میں تاخیر ہوئی۔
’یہ قانون صرف ان افراد کے لیے ہے جو برسوں سے ظلم و ستم کا شکار ہیں اور ان کے پاس انڈیا کے علاوہ دنیا میں کوئی اور پناہ گاہ نہیں ہے۔‘
اس ترمیمی ایکٹ (سی اے اے ) کے تحت ان ہندو، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں اور بدھ مت اور جین مت ماننے والوں اور دیگر کو انڈیا کی شہریت دی جا سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ممالک، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر ہندو اکثریتی ملک انڈیا آگئے تھے۔
مودی کی حکومت نے دسمبر 2019 کے بعد اس قانون کو نافذ نہیں کیا کیونکہ نئی دہلی اور دیگر علاقوں میں مظاہرے اور فرقہ وارانہ تشدد شروع ہو گیا تھا۔
کئی دنوں کی جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹر یشن کے ساتھ مل کر انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر سکتا ہے۔
کچھ افراد کو خدشہ ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں بغیر دستاویزات کے مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے۔