Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز‘، کارروائی درست اور حق دفاع پر مبنی ہے: ماہرین

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے آج کی کارروائی اپنا دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے کی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے افغانستان کی حدود میں کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب مسلسل دو روز تک پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملے ہوئے جس میں افسروں سمیت کئی اہلکار جان سے گئے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں کے حملے میں جان دینے والے دو افسران کے نماز جنازہ کے موقعے پر صدر آصف علی زرداری نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے عزم کے اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ جہاں بھی ہوں گے اور جس ملک میں بھی ہوں گے، ان کا پیچھا کیا جائے گا۔‘
صدرزرداری نے کہا تھا کہ ’پاکستان کے بہادر سپوتوں نے مادر وطن کے دفاع کے لیےکبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔دہشت گردوں سے جوانوں کے بہائے گئے خون کا خراج لیں گے۔ ہمارے بیٹوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔‘
صدر کے اعلان کے ٹھیک ایک دن بعد پاکستان کی فضائیہ نے افغانستان کے سرحدی علاقے میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے ذریعے کارروائی کی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق ’آپریشن کا ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشت گرد تھے۔ یہ گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر پاکستان میں کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار ہے۔‘
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’پاکستان افغانستان کے لوگوں کا بہت احترام کرتا ہے، تاہم افغانستان میں اقتدار میں موجود کچھ عناصر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنی سرحد سے باہر کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے بلکہ اس سے قبل بھی افغانستان اور ایران کی حدود میں پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے آج کی کارروائی اپنا دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے کی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار اور سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے کی ہے۔ گزشتہ دو برس میں پاکستان نے کئی مرتبہ افغانستان کی نگراں حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا کہ وہ دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکیں لیکن یہ سلسلہ بتدریج بڑھتا رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان نے یہ کارروائی افغانستان کی حدود کے اندر جا کے کی یا اپنی ہی حد میں رہتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ دہشت گرد پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث تھے تو ان کے خلاف کارروائی کرنا اور انہیں نشانہ بنانا انسداد دہشت گردی کے پاکستان کے جاری مشن اور اپریشن کا حصہ ہے، اسے سراہا جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی بھی خودمختار ریاست کی سرحد کا دفاع کرنا چاہیے لیکن دوسری ریاست پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔‘

دو دن قبل پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملے میں افسروں سمیت کئی اہلکار جان سے گئے (فائل فوٹو: آئی ایس پی آر)

’دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ افغان حکومت کے اندر لوگ موجود ہیں جو دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں پاکستان کی کارروائی بالکل درست اور جواز رکھتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو اب صرف اس کارروائی تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ دوست ممالک جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر شامل ہیں، ان کے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے افغان حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود ایسے عناصر جو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ان کی سرکوبی کرے۔‘
لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ افغان حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے، بجائے اس کے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھے، اسے پاکستان کے مطالبات پر غور کرنا چاہیے۔ پاکستان کو بھی افغان حکومت کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا چاہیے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے پاکستان کی کارروائی کو سرجیکل سٹرائیک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کارروائی بالکل درست اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے عین مطابق تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گل بہادر گروپ کو نہ صرف یہ کہ افغان حکومت کے اندر سے حمایت حاصل تھی بلکہ ان کی جانب سے پاکستان میں کی گئی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کئی افغان شہری بھی ملوث تھے۔‘
بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے مزید کہا کہ ’کئی مرتبہ افغان حکومت کو یہ بات باور کرائی گئی کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور یہ ان معاہدوں کے خلاف ورزی ہے جو انہوں نے پاکستان اور عالمی دنیا سے کیے ہوئے ہیں، اس کے باوجود افغان حکومت نے خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔‘
’اس کے بعد پاکستان نے مجبوراً کارروائی کی اور اس انداز سے کی کہ جس میں صرف اور صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور کسی بھی طور پر سویلینز کا جانی نقصان نہیں ہوا۔‘

شیئر: