ججز کے خط سے انکوائری کمیشن تک، اعلٰی ایوانوں میں دو دن کیا چلتا رہا؟
ججز کے خط سے انکوائری کمیشن تک، اعلٰی ایوانوں میں دو دن کیا چلتا رہا؟
جمعرات 28 مارچ 2024 21:12
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز محمد عیسٰی نے عدالت عظمٰی کے فل کورٹ کی صدارت کی مگر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
منگل کی سہہ پہر تک سب ٹھیک تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہونے کے بعد نومنتخب وزیراعظم، وزرائے اعلٰی اور وزرا اپنے دفاتر میں قدم رنجہ فرما کر معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکے تھے۔
بڑی سیاسی جماعتیں سینیٹ انتخابات کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف تھیں اور اپنے زیادہ سے زیادہ سینیٹر منتخب کروانے کے لیے رابطے کر رہی تھیں اور ڈوریں ہلا رہی تھیں۔ بظاہر لگتا تھا کہ نظام میں ایک ٹھہراو آ گیا ہے۔ اور سینیٹ انتخابات مکمل ہونے کے بعد نو منتخب حکومتیں اور پارلیمانی ادارے تیزی سے اپنا ایجنڈا آگے بڑھائیں گے۔
لیکن پھر اچانک خبر آئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں بشمول سینیئرجج جسٹس محسن اختر کیانی نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور دباؤ کے ذریعے اثرانداز ہونے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا ہے۔
خط میں ججز نے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے سنہ 2018 میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرانے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ماضی قریب میں عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی مداخلت، ججوں کے اہل خانہ، دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے ان پر اثر انداز ہونے کی کوششوں اور کچھ غیرمعمولی اقدامات کی نشان دہی کی ہے۔
ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنے خط میں لکھا کہ ’ٹیریان وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بینچ میں شامل ججز کا اختلاف سامنے آیا۔ پریذائیڈنگ جج نے اپنی رائے کا ڈرافٹ بھجوایا جس سے دیگر دو ججز نے اختلاف کیا۔‘
الزام عائد کیا گیا کہ ’ایجنسیوں کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججوں پر دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا جس کے بعد ایک جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوکر ہسپتال داخل ہوئے۔‘
’اس کے باوجود ایجنسیوں کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔‘
اس خبر نے تو جیسے دھماکہ ہی کر دیا۔ سکوت جو گہرا ہوا ہی چاہتا تھا یک دم ٹوٹ گیا۔
جہاں حکومت اور اس کے حمایتیوں نے اس خط کے پیچھے سازش کی کہانیاں ڈھونڈنا اور ’ضمیروں کے جاگنے‘ کے وقت پر شک ظاہر کرنا شروع کیا، وہیں اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف نے اس کو عدلیہ میں ایک انقلاب کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔
پاکستان کی تقریباً تمام وکلا بارز نے اس پر تشویش کا اظہار کیا اور ان الزامات کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز محمد عیسٰی نے عدالت عظمٰی کے فل کورٹ کی صدارت کی مگر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔
وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل عثمان منظور نے بھی بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سےملاقات کی تھی جس میں جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کا جائزہ لیا گیا تھا۔
پھر خبر آئی کے جمعرات کو وزیراعظم شہباز شریف چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے ملاقات کریں گے۔ جہاں وزیراعظم کے اس طرح چیف جسٹس سے ملاقات کرنے پر مختلف حلقوں نے اعتراض کیا، وہیں حکومتی ذرائع کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اس ملاقات کا مقصد سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں ٹیکس معاملات سے متعلق زیرِالتوا مقدمات پر گفتگو کرنا ہے۔
تاہم جمعرات کی سہہ پہر شہباز شریف دو بج کر پانچ منٹ پر سپریم کورٹ پہنچے اور چیف جسٹس سے تفصیلی ملاقات کی۔ چیف جسٹس کے چیمبر میں ہونے والی اس ملاقات میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی موجود تھے۔
ملاقات کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ چیف جسٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے بارے میں بات ہوئی ہے اور اس کی تحقیقات کے لیے حکومت ایک کمیشن بنائے گی۔
اس اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر سخت ردعمل دیتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کے قیام اور اس کے ذریعے تحقیقات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
تحریک انصاف نے چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات پر نہایت تشویش کا اظہار کیا اور معاملے کو عدالتِ عظمیٰ کے لارجر بینچ کے سامنے رکھنے اور کھلی عدالت میں اس پر کارروائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
تحریک انصاف نے ہائی کورٹ کے ججوں کے مطالبے کی روشنی میں جیوڈیشل کانفرنس بھی طلب کرنے اور ہر سطح کے ججوں کو اس موضوع پر حقائق قوم کے سامنے رکھنے کا موقع دینے کا مطالبہ کیا۔
تاہم وزیراعظم سے ملاقات کے بعد جمعرات کی شام کو عدالت عظمٰی کا ایک مرتبہ پھر فل کورٹ اجلاس ہوا جس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ججوں کے معاملات اور انتظامی امور میں ایگزیگٹو (حکومت) کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، اور کسی بھی طرح کے حالات میں عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘
اعلامیے کے مطابق ’چیف جسٹس اور ان کے بعد سینیئر ترین جج (جسٹس منصور علی شاہ) نے واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی ستون ہے جو قانون کی بالادستی اور مضبوط جمہوریت کو یقینی بناتا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت ایک انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی جس کی سربراہی کے اچھی ساکھ حامل ایک ریٹائرڈ جج کریں گے۔
اس موقعے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مذکورہ کمیشن کی تشکیل کی مظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔
وزیراعظم نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر موسٹ جج جسٹس منصور علی شاہ کے خیالات کی مکمل تائید کرتے ہوئے مزید یقین دلایا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات اور اس بارے میں متعلقہ محکموں کو ہدایات بھی جاری کریں گے۔
’وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ فیض آباد دھرنا کیس پر لیے گئے سوموٹو کے فیصلے کے پیراگراف 53 کے تحت قانون سازی کے عمل کا آغاز بھی کریں گے۔‘
اعلامیے کے مطابق ’اس کے بعد گذشتہ اجلاس کے تسلسل میں چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ میٹنگ بلائی اور ججز کو وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے متعلق بریفنگ دی۔‘
تاہم دلچسپ بات یہ رہی کہ سپریم کورٹ کے اعلامیے میں ٹیکس مقدمات زیرِبحث آنے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی جس کے بعد مبصرین کا خیال ہے کہ وہ بات صرف معاملے کی سنگینی کو کم ظاہر کرنے کے لئے کی گئی تھی۔
اب جبکہ حکومت تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کر چکی ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اپنے اعلامیے کے ذریعے اس خط پر تشویش ظاہر کر دی ہے بظاہر لگتا نہیں کہ یہ معاملہ اتنی جلدی ختم ہو گا۔
تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی آئے یہ خط پاکستان کے عدالتی نظام پر اپنے اثرات چھوڑ جائے گا۔ دوسری طرف مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے تحقیقات کا اعلان اس معاملے کو پس پشت ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔