Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چابہار بندرگاہ‘ کے ذریعے انڈیا ’گوادر کی بندرگاہ‘ کا مقابلہ کرے گا: تجزیہ کار

معاہدے کے تحت انڈیا چابہار بندرگاہ کے انفراسٹرکچر میں 12 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی چابہار بندرگاہ کو چلانے کے حوالے سے کیا گیا نیا معاہدہ انڈیا کو افغانستان اور وسط ایشیا تک نہ صرف گیٹ وے فراہم کرے گا بلکہ اس کے ساتھ ممکنہ طور پر وہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کا بھی مقابلہ کرے گا۔
عرب نیوز کے مطابق انڈین پورٹس گلوبل لمیٹڈ اور پورٹ اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کو ترقی دینے کے حوالے 10 برس کا معاہدہ پیر 13 مئی کو تہران میں طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے تحت انڈیا چابہار کی بندرگاہ کے انفراسٹرکچر میں 12 کروڑ ڈالر (120 ملین ڈالر) کی سرمایہ کاری کرے گا۔
انڈیا کے وزیر جہاز رانی سربانند سونووال نے اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’چابہار کو ترقی دینے کا یہ معاہدہ ’انڈیا اور ایران کا فلیگ شپ منصوبہ‘ ہے۔‘
اُن کے مطابق ’چابہار کی بندرگارہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے گیٹ وے ثابت ہوگی۔‘
انڈیا نے مئی 2016 میں اس وقت چابہار بندرگاہ کو ترقی دینے کا عزم ظاہر کیا تھا جب اس نے ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر اسے ایک علاقائی تجارتی مرکز بنانے کے لیے سہ فریقی معاہدہ کیا تھا۔
ایران میں انڈیا کے سفیر ڈی پی سری واستو کا کہنا ہے کہ ’چابہار بندرگاہ کا معاہدہ انڈیا اور ایران کے دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔‘
انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’موجودہ معاہدہ اب تک کی ہونے والی پیش رفت کو آگے بڑھائے گا۔‘
انڈیا کی جانب سے چابہار کی بندرگاہ میں دلچسپی 2016 میں امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد شروع ہوئی، بعدازاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے یہ پابندیاں دوبارہ عائد کردی تھیں۔
پیر کو چابہار بندرگاہ کے حوالے سے معاہدے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’ایران کے خلاف پابندیاں بدستور عائد رہیں گی اور امریکہ ان پر عمل درآمد کرائے گا۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’ایران کی چابہار بندرگاہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کا مقابلہ کرے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سینٹر فار ویسٹ ایشیئن سٹڈیز کی پروفیسر سجوتا ایشوریہ کہتے ہیں کہ ’اس بات کا امکان نہیں کہ یہ پابندیاں انڈیا کو متاثر کریں گی۔‘
ان کے مطابق ’چابہار میں انڈیا کی موجودگی سے امریکہ کے بڑے حریف چین کو ایرانی بندرگاہ میں مداخلت سے دور رکھنے میں مدد دے گی۔‘
 پروفیسر سجوتا ایشوریہ کا مزید کہنا ہے کہ ’انڈیا موثر طور پر چین کو اس منصوبے سے دُور رکھے گا، اگر ہم وہاں ہوں گے تو چین نہیں ہوگا اور امریکہ پابندیاں بھی نہیں لگائے گا۔‘
ایران کے جنوب مشرق میں واقع چابہار کی بندرگاہ پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع گوادر کی بندرگاہ سے 100 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔
گوادر کی بندرگاہ پاکستان اور چین کے اقتصادی راہداری کے منصوبے (سی پیک) کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کا ایک حصہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایران کی چابہار بندرگاہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کا مقابلہ کرے گی۔‘
انڈین پروفیسر کہتی ہیں کہ ’یہ بندرگاہ گوادر کا مقابلہ کرے گی، اس سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کو محفوظ راہداری ملے گی جس سے انڈیا کی تجارت میں اضافہ ہوگا۔‘

شیئر: