Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ویوز کی خاطر بدنام نہ کریں‘، وادی کیلاش کی خواتین یوٹیوبرز سے پریشان

منہاس الدین نے کہا کہ خواتین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انٹرویو دینے سے گریز کریں۔ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں ہزاروں سال سے کیلاش قبیلے کے باشندے آباد ہیں جو اپنی منفرد تہذیب کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔
ہر سال ہزاروں سیاح اس علاقے کی سیر کو آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چترال آنے والے 90 فیصد سیاح وادی کیلاش کو دیکھنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
وادی کیلاش کی سیر کو آنے والے سیاحوں میں ایک بڑی تعداد وی لاگرز اور سوشل میڈیا انفلونسرز کی ہے۔ یہ یہاں کی ثقافت اور قدرتی مناظر پر ویڈیوز بنا کر دنیا کو دکھاتے ہیں مگر ان وی لاگرز سے اب یہاں کے لوگ اکتائے ہوئے ہیں، بالخصوص کیلاشی خواتین جو کیمروں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر بھاگ جاتی ہیں۔

کیلاشی خواتین وی لاگرز سے پریشان کیوں ہیں؟

کیلاش کی لڑکیاں وادی میں آنے والے وی لاگرز سے دور بھاگتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہونے والا منفی مواد ہے۔
کیلاش سے تعلق رکھنے والی سید گل نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہاں آنے والے بیشتر سیاح اپنی ویڈیو میں خاتون کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں ویوز چاہیے ہوتے ہیں۔ یہ وی لاگرز یا پھر سوشل میڈیا انفلونسرز ویڈیو میں اپنی پسند کی بات کو کاٹ کر خاتون کا انٹرویو لگا دیتے ہیں جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ انٹرویو لینے والوں کے سوالات بہت ہی عجیب ہوتے ہیں۔ اکثر سوالات محبت اور بھاگ کر شادی جیسے حساس موضوعات سے متعلق پوچھے جاتے ہیں۔
’اگر یوٹیوبرز نے کیلاش کی تاریخ اور ثقافت پر انٹرویو لینا ہے تو کسی بڑے یا بزرگ سے بات کریں، کیا کم عمر لڑکی سے بات کرنا ضروری ہے؟‘
سید گل کے مطابق ہر کسی سے انٹرویو لینے پر پابندی ہونی چاہیے تاکہ یوٹیوبرز کو غلط یا منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ سبسکرائبرز کے چکر میں نہ صرف ہمیں بلکہ پورے چترال کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

کیلاش کی لڑکیاں وادی میں آنے والے وی لاگرز سے دور بھاگتی ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

کیلاش کی ایک اور لڑکی رانی کا کہنا تھا کہ ’بیشتر یوٹیوبرز ہم سے اجازت لیے بغیر ویڈیوز بناتے ہیں، اور جب ہم انٹرویو نہیں دینا چاہتے تو آگے سے عجیب و غریب سوالات پوچھ کر ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں آنے سیاحوں خصوصاً میڈیا کو ہماری عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔
رانی کے مطابق ’یوٹیوبرز کو اندازہ نہیں کہ وہ اپنے ویوز کے لیے ہمارے قبیلے اور ثقافت کو بدنام کررہے ہیں۔ ان کی ویڈیوز دیکھ کر پھر اور بھی ایسے لوگ کیمرہ اٹھا کر آ جاتے ہیں اور وہی سوالات دہراتے ہیں۔ سیاحوں کے اس رویے کی وجہ سے انہیں بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’غیرملکی یوٹیوبرز بھی ہمارے قبیلے آتے ہیں مگر انہوں نے کبھی ہماری مرضی کے بغیر ویڈیوز نہیں بنائیں۔ آپ جا کر غیرملکی وی لاگرز کے کنٹینٹ دیکھیں، انہوں نے ہمیشہ ایک مثبت پہلو دکھایا ہے۔‘

’خواتین انٹرویو دینے سے گریز کریں‘

کیلاش ویلیز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل منہاس الدین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے کیلاشی برادری کو آگاہی دی جا ری ہے، خصوصاً خواتین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انٹرویو دینے سے گریز کریں۔ صرف وہ افراد انٹرویو دیں جو کیلاش کی ثقافت کے بارے میں بخوبی علم رکھتے ہوں۔

ہر برس ہزاروں سیاح کیلاش کی سیر کو آتے ہیں۔ (فوٹو: پِیک)

انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ ویڈیوز بنانے سے کسی کو روکا جا سکے تاہم سوشل میڈیا پر منفی مواد سے متعلق شکایات آنے کے بعد باقاعدہ طور پر قواعد و ضوابط بنائے جا رہے ہیں جس پر سخت عمل درآمد کیا جائے گا۔
ڈی جی کیلاش اتھارٹی کا کہنا تھا کہ یوٹیوبرز کو بھی چاہیے کہ وہ مقامی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ طریقے سے ویڈیو بنائے۔
’اس علاقے میں سیاحت کے لیے قدرتی حسن ہے، یہاں کی منفرد ثقافت موجود ہے۔ پوری دنیا کو ایک مثبت چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ سیاح آئیں۔‘

’خواتین کی عزت و احترام پہلی ترجیح ہے‘

خواتین کو ہراساں اور منفی پروپیگنڈہ کے واقعات کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے 14 مئی کو منعقد ہونے والے کیلاش چلم جوشٹ فیسٹول میں میڈیا کے انٹرویوز پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال کی ہدایت پر تمام خواتین کو غیرمقامی افراد کے ساتھ ویڈیو انٹرویو سے منع کیا گیا تھا۔ اس پر میلے کے دوران سختی سے عمل درآمد کیا گیا۔
ڈی سی چترال عمران یوسفزئی کے مطابق کیلاش کے مذہبی تہوار کو دیکھنے سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ ان میں اکثر ویڈیوز بنانے کے مقصد سے آتے ہیں مگر یہاں کی خواتین کی عزت و احترام پہلی ترجیح ہے۔

کیلاش قبیلے کے باشندے اپنی منفرد تہذیب کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ (فوٹو: فلائی پاکستان)

ان کا کہنا تھا کہ مقامی خواتین کی مرضی سے ویڈیو بنانی چاہیے، اگر کوئی انٹرویو کرے تو اس کے لیے بزرگ شہری یا قبیلے کا سربراہ موجود ہوتا ہے تاکہ کوئی بھی من گھڑت خبریں نہ پھیلا سکے ۔
واضح رہے کہ کیلاش کمیونٹی کی جانب سے قبیلے سے متعلق غلط معلومات پر مبنی ویڈیوز کے خلاف رپورٹ کرائی گئی ہے جبکہ اس معاملے پر ایف آئی اے کو بھی درخواست دی گئی ہے۔

شیئر: