Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی: سرد خانوں میں میتیوں کی تعداد میں اضافہ، وجہ ہیٹ ویو؟

مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے سڑکوں پر کیمپ بھی لگائے گئے ہیں جہاں سڑک سے گزرنے والے افراد کو ٹھنڈے مشروبات فراہم کیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سرد خانوں میں گذشتہ چھ روز سے معمول سے بڑھ کر میتیں لائی جا رہی ہیں۔ ریسکیو اداروں کا دعویٰ ہے کہ اب تک 650 سے زائد میتیں سرد خانے منتقل کی گئی ہیں، زیادہ لاشیں شہر کے گنجان علاقوں سے سرد خانوں میں لائی گئی ہیں۔
ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی سورج سوا نیزے پر ہے۔ جہاں شدید گرمی شہریوں کو پریشان کر رہی ہے، وہیں شہر میں اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
شہر کے مختلف سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ہیٹ ویو سے متاثرہ افراد کے لیے خصوصی طور پر انتظامات کیے گئے ہیں۔
سول ہسپتال کراچی، جناح ہسپتال اور عباسی شہید سمیت دیگر ہسپتالوں میں عملے کو الرٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے سڑکوں پر کیمپ بھی لگائے گئے ہیں جہاں سڑک سے گزرنے والے افراد پر پانی کے چھڑکاؤ کیا جاتا ہے اور انہیں ٹھنڈے مشروبات فراہم کیے جاتے ہیں۔
ایدھی ویلفیئر کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق ان کے پاس گذشتہ چھ روز میں تین مختلف سرد خانوں میں اب تک 568 افراد کی میتیں لائی گئی ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان میں بیشتر میتیوں کے ورثا موجود ہیں جبکہ چند میتیں ایسی ہیں جن کا کوئی وارث سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم کمشنر کراچی سید حسن نقوی نے کہا ہے کہ کراچی میں گذشتہ دو دنوں میں ہیٹ سٹروک سے 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ شہر میں زائد اموات کے حوالے سے جو اعدادوشمار بتائے جا رہے ہیں ان کی کسی ذریعے سے تصدیق نہیں ہوئی۔
انہوں نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلاحی سمیت کوئی بھی ادارہ موجودہ صورتحال کے حوالے سے از خود اموات کا ڈیٹا جاری نہ کرے، حکومت اور انتظامیہ سے پہلے تصدیق کرے
فیصل ایدھی کے مطابق کراچی شہر میں ان دنوں گرمی کی شدت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ شہر میں بجلی کی بندش بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
’شہر بھر سے میتیں سرد خانوں میں لائی گئی ہیں۔ ان میں بیشتر میتیں ایسی ہیں جو گنجان علاقوں سے لائی گئی ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان مرنے والوں کی موت کی وجہ ہیٹ ویو ہی ہے، کیونکہ کئی میتیں ایسی ہیں جو مختلف بیماریوں کے شکار افراد کی ہیں۔ لیکن عام طور پر اتنی میتیں روز نہیں آتی جتنی گذشتہ چھ روز میں لائی گئی ہیں۔‘
چھیپا ویلفیئر کے ترجمان محمد شاہد نے بتایا کہ چھیپا کے سرد خانوں میں گذشتہ تین روز میں 100 افراد کی میتیں لائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتوار کو کُل 37 میتیں سرد خانے میں لائی گئیں۔ ان میں 13 میتیں لاوارث ہیں اور 24 میتوں کو ان کے ورثا نے رکھوایا ہے۔ اسی طرح پیر کو 44 میتیں سرد خانے منتقل کی گئی ہیں جن میں 15 لاوارث ہیں اور 29 میتیں ورثا نے جمع کرائی ہیں۔ منگل کو 19 افراد کی میتیں سرد خانے لائی گئیں جن میں آٹھ لاوارث ہیں اور 11 ورثا نے جمع کرائی ہیں۔

محمد وسیم کے مطابق کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہسپتالوں میں ہیٹ سٹوک سے متاثرہ افراد کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ (فوٹو: اے پی)

دوسری جانب کمشنر کراچی سید حسن نقوی نے کہا ہے کہ شہر میں ہلاک ہونے والوں کی شرح میں معمول سے کچھ بڑھی ہے لیکن زائد ہلاکتیں ہیٹ سٹروک سے نہیں ہوئیں۔ ہم نے ڈیٹا جمع کر نے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع اختیار کیے ہیں، قبرستانوں کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے بلدیہ عظمیٰ سے اور شہر میں سرد خانوں سے بھی رابطہ کیا۔
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے فراہم کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں گذشتہ ایک ماہ میں ہیٹ ویو سے متاثرہ 1718 افراد کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے، جن میں 1269 مرد، 397 خواتین اور پانچ سال سے کم عمر کے 52 بچے شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 1718 افراد میں سے ایک شخص کی کراچی میں موت ہیٹ ویو کے باعث ہوئی ہے۔ متاثرہ شخص کو عباسی شہید ہسپتال سے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
صوبے میں کیسز کی تفصیلات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ ہیٹ ویو کے کیسز سندھ کے شہر دادو میں ریکارڈ کیے گئے ہیں، جہاں 21 سے 25 مئی تک 877 افراد ہیٹ ویو سے متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح شہید بے نظیر آباد میں 337 کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔ کراچی شہر میں سب سے کیسز ضلع جنوبی میں ریکارڈ کیے گئے ہیں، اس ضلع میں 21 سے 25 مئی تک کل 110 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے اور صوبے میں واحد موت بھی اسی ضلع میں ریکارڈ کی گئی ہے۔

 کیا سنہ 2015 جیسے حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں؟

کراچی ہیٹ ویو سیل کے رکن محمد وسیم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہسپتالوں میں ہیٹ سٹوک سے متاثرہ افراد کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ہے، لیکن صورتحال سنہ 2015 جیسی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کی جانب سے موسم کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے سے اقدامات کیے گئے ہیں، کوشش ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کریں۔

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی سورج سوا نیزے پر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

محمد وسیم نے کہا کہ ’سنہ 2015 کی صورتحال کے بارے میں سوچ کر خوف آتا ہے، وہ ایک ایسا منظر تھا جو کوئی نہیں بھلا سکتا۔ ہر طرف سے صرف لوگوں کی موت کی خبریں ہی سامنے آ رہی تھیں، اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک جانب ہسپتالوں میں گنجائش نہیں تھی تو دوسری جانب سرد خانے بھر چکے تھے۔ لوگ اپنے پیاروں کی میتیں لے کر ایک سرد خانے سے دوسرے سرد خانے جا رہے تھے اور میتیوں کی تدفین کے لیے پریشان ہو رہے تھے۔‘
’اس واقع کے بعد بہت سی چیزوں میں بہتری آئی ہے، اب سندھ کے تمام ہسپتالوں میں ایک نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ اب بھی ہیٹ ویو سے متاثر کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، مریضوں کو فوراً ضروری سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جس سے کئی قیمتی جانیں بچ رہی ہیں۔‘
ادھر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی شہر میں اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر سعید غنی، ناصر حسین شاہ اور ضیا لنجار کی جانب سے شہر میں بجلی کی بندش پر شدید ردعمل دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا لنجار کا کہنا ہے کہ کراچی میں گذشتہ دنوں متعدد افراد کی ہلاکتوں پر تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ اچانک اموات کی انکوائری میں اگر لوڈشیڈنگ وجہ بنی تو کے الیکٹرک انتظامیہ کے خلاف قتل کے مقدمات درج کرائیں گے۔
کراچی میں اچانک ہلاکتوں کے اضافے کے معاملے پر ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ شہر میں بجلی کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی شہر میں اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ شہر میں اچانک اموات کی ذمہ داری کے الیکٹرک پر نہیں ڈالی جا سکتی ہے۔ کے ای انتظامیہ اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر شہر میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنا رہا ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ایک واضح سسٹم موجود ہے۔ جن علاقوں میں بجلی چوری اور بلوں کی ادائیگی کا تناسب کم ہے وہاں شیڈول کے مطابق لوڈشیدنگ ہے۔ جن علاقوں کی ریکوری اچھی ہے وہاں بجلی کی فراہمی بہتر ہے۔

شیئر: