سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی معافی قبول کر لی، توہین عدالت کا نوٹس واپس
فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس کر کہ ججز پر تنقید کی تھی۔ فوٹو: اے پی پی
سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا ہے۔
جمعے کو سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی براہ راست سماعت کی۔
سماعت کے دوران وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگی ہے اور پریس کانفرنس پر بھی ندامت کا اظہار کر چکے ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واوڈا سے استفسار کیا ’آپ کے وکیل نہیں آئے۔ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے۔‘
فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ انہوں نے بھی معافی مانگی ہے۔
’میں یقین دہانی کرواتا ہوں آئندہ شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ ہم عدلیہ کی زیادہ عزت کریں گے
سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو جاری شوکاز نوٹس واپس لیا جاتا ہے، توقع ہے دونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابل قبول نہیں ہو گی۔
ٹی وی چینلزکی جانب سے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ نے تمام میڈیا چینلز کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جواب دو ہفتے میں جمع کرانے کا کہا ہے۔
دو روز قبل بدھ کو سینیٹر فیصل واوڈا نے توہین عدالت کیس میں پاکستان کی سپریم کورٹ سے غیرمشروط معافی مانگتے ہوئے اپنے خلاف عدالتی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کی تھی
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں سینیٹر فیصل واوڈا نے مؤقف اپنایا تھا کہ ’خود کو سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں، میری پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین نہیں تھا۔‘
خیال رہے کہ سینیٹر فیصل واوڈا نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور رُکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کو عدلیہ کے خلاف پریس کانفرنسز پر توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
عدالت نے پیمرا سے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور متن طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔