Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کے الیکٹرک خریدنے کی پیشکش کرنے والے علی شیخانی کون ہیں؟

علی شیخانی کی پیدائش 15 اکتوبر 1986 کو کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ہوئی (فوٹو: سکرین گریب، انسٹاگرام)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ’کے الیکٹرک‘ کو خریدنے کا اعلان کرنے کے بعد علی شیخانی کا نام خبروں میں ہے۔
علی شیخانی کی جانب سے کے الیکٹرک کو خریدنے کے اعلان کی ویڈیو کراچی کی ایک فلاحی تنظیم ’جے ڈی سی فاؤنڈیشن‘ کے فیس بک پیج پر شیئر کی گئی، جس میں انہوں نے کے الیکٹرک کو خریدنے کا اعلان کیا۔
جمعے کے روز فیس بُک پر شیئر کی گئی ویڈیو پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے چار دنوں سے مجھے اور میری ٹیم کو ٹیگ کیا جا رہا ہے کہ کے الیکٹرک کو خرید لیا جائے۔ میں نے ظفر  بھائی (جے ڈی سی کے سربراہ ) کو کہا ہے کہ وہ معلوم کریں کہ کے الیکٹرک فروخت ہو چکی یا فروخت ہونے والی ہے اور اسے خریدنے کا کیا طریقہ کار ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے پیسے کمانے کا شوق نہیں اور نہ ہی وہ کراچی والوں سے پیسے لوٹیں گے بلکہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کو تکلیف سے نکالنے کے لیے کے الیکٹرک خریدیں گے‘۔
علی شیخانی نے بجلی کمپنی کو خریدنے کے اعلان کے علاوہ شہر کراچی میں بے امنی پر بھی بات کی اور کہا کہ ’شہر میں موبائل فون نہ دینے پر لوگوں کو گولیاں مار دی جاتی ہیں.‘
 
انہوں نے مزید کہا کہ ’کراچی کے شہری لوڈشیڈنگ کے عذاب سے پریشان اور تنگ ہیں، وہ انہیں تحفظ اور سکون فراہم کرنے کے لیے بجلی کمپنی خریدنا چاہتے ہیں.‘

علی شیخانی کون ہیں؟

لنکڈ ان پر دستیاب معلومات کے مطابق علی شیخانی شیخانی گروپ آف کمپنیز کے سی ای او ہیں۔
علی شیخانی کی پیدائش 15 اکتوبر 1986 کو کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ہوئی۔ وہ 19 سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہوئے جہاں انہوں نے ابتدائی طور پر ایک گیس سٹیشن میں ملازمت اختیار کی۔
انہوں نے یونیورسٹی آف ہوسٹن سے کریمنل جسٹس کی ڈگری اور ٹی کول لائسنس حاصل کر رکھا ہے۔

علی شیخانی نے یونیورسٹی آف ہوسٹن سے کریمنل جسٹس کی ڈگری حاصل کی (فوٹو: سکرین گریب، انسٹاگرام)

علی شیخانی نے ایک پوڈکاسٹ میں بتایا تھا کہ وہ امریکہ منتقل ہونے سے پہلے کراچی کے علاقے صدر کی ایک سونے کی دکان میں ملازمت کرتے تھے۔
امریکہ منتقل ہونے کے بعد انہوں نے امریکی پولیس میں بھی وقت گزارا ہے۔ علی شیخانی کی مجموعی دولت کا تخمینہ 60 کروڑ ڈالر کے لگ بگ لگایا گیا ہے۔

شیخانی گروپ کیا ہے؟

علی شیخانی نے صرف 12 سال قبل سنہ 2012 میں امریکی ریاست ٹیکساس میں شیخانی گروپ کے نام سے مختلف کاروباروں پہ مشتمل کمپنیوں کا گروپ بنایا۔
اب اس گروپ کے امریکہ اور پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی کاروبار ہیں۔
گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق شیخانی گروپ کے تحت 40 کمپنیاں امریکہ اور پاکستان میں کاروبار کر رہی ہیں، جبکہ اس گروپ کے پاس 250 کرائے کی دکانوں کے آؤٹ لیٹس کی ملکیت بھی ہے۔

علی شیخانی امریکی پولیس کا بھی حصہ رہے ہیں (فوٹو: سکرین گریب، انسٹاگرام)

ان کمپنیوں  میں دو ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں جبکہ نوجوان بزنس مین نے گیس سٹیشنز، پیٹرول پمپس، سولر سمیت انرجی کے دیگر ذرائع میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اس کے علاوہ شیخانی گروپ شاپنگ پلازے بنانے سمیت دیگر ریئل اسٹیٹ کا کام بھی کرتا ہے تاہم گروپ کے اثاثوں سے متعلق ویب سائٹ پر کوئی معلومات دستیاب نہیں۔

کیا علی شیخانی کے الیکٹرک خرید سکتے ہیں؟

کراچی میں بجلی کے بڑھتے مسائل کا معاملہ سوشل میڈیا پر اٹھنے کے بعد علی شیخانی نے کے الیکٹرک کو خریدنے کی پیشکش کی تھی، تاہم یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ان کے پاس کے الیکٹرک کو خریدنے کے لیے سرمایہ ہے؟
کراچی میں مقیم صحافی زوہیب منشا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’علی شیخانی کی کے الیکٹرک کو خریدنے کی پیش کش کو پبلسٹی سٹنٹ یا سستی شہرت حاصل کرنے کا طریقہ ہی کہیں گے۔ کیونکہ نہ ہی کے الیکٹرک نے اعلان کیا ہے کہ وہ بک رہی ہے اور نہ ہی کے الیکٹرک کو خریدا جا سکتا ہے۔‘
’آپ علی شیخانی کی نیٹ ورتھ دیکھیں اور دوسری طرف کے الیکٹرک کی نیٹ ورتھ دیکھیں تو ان میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔ علی شیخانی کی نیٹ ورتھ 60 کروڑ سے ایک ارب ڈالر کے آس پاس ہے جبکہ کے الیکٹرک کے اثاثوں کی مالیت دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ پبلسٹی سٹنٹ اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ علی شیخانی خود کو بزنس میں کہتے ہیں اور ایک کمپنی کی بنیادی معلومات حاصل کیے بغیر اسے خریدنے کی پیکش کر رہے ہیں جبکہ کے الیکٹرک کا پہلے ہی 20 سالوں کا معاہدہ ہے۔‘
’امریکہ جیسے ملک میں کاروبار کرنے والا ایک بزنس مین ایک کمپنی کی خریدای کے لیے سوشل پلیٹ فارم پر اعلان کر رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو بنیادی رولز کا علم ہی نہیں ہے تو آپ کیسے خرید سکتے ہیں۔‘

کراچی کو بجلی کے متعلق مسائل کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 
معاشی امور سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا کے مطابق سرکاری اداروں کی نجکاری کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ کے الیکٹرک کے اکثریتی حصص پہلے ہی بک چکے ہیں، حکومت کے حصص بہت کم ہیں۔
’پرائیویٹ کمپنی ڈیل کر سکتی ہے۔ چینیوں نے بھی ڈیل کی تھی، اس کے لیے این او سی چاہیے ہوتا ہے۔ یہ ایک صارفین کی کمپنی ہے تو اس میں پروٹیکشن کا سوال ہوتا ہے۔ حتی کہ جو پرائیویٹ حصہ دار ہیں کے الیکٹرک کے، وہ بھی حکومت کی مرضی کے بغیر اپنے حصص کسی کو آگے بیچ نہیں سکتے ہیں۔‘
انہوں نے  کہا کہ ’پیشکش تو کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن اس کی خریداری کے لیے کمپنیوں کو متعلقہ حکومتی اداروں کا این او سی درکار ہوتا ہے۔ شنگائی الیکٹرک کو بھی وہ این او سی نہیں مل سکا تھا۔‘
شہباز رانا نے کے الیکٹرک کی قیمت کے حوالے سے کہا کہ ’اس کی قیمت کے متعلق تو نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ شنگائی الیکٹرک کی جو ڈیل تھی اس میں جو کچھ شیئرز وہ خریدنا چا رہے تھے، ان کی اس وقت کی ویلیو سات ارب 10 کروڑ ڈالر تھی جو بعد میں چار ارب 10 کروڑ ڈالر تک آ گئی تھی۔‘

شیئر: