Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران: صدارتی انتخابات میں پزشکیان کی جیت،جلیلی کو شکست

سعید جلیلی کو ایک کروڑ 35 لاکھ ووٹ ملے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق قدامت پسند سعید جلیلی کو شکست دیتے ہوئے مسعود پزشکیان نے مغرب تک پہنچنے اور اسلامی جمہوریہ پر برسوں کی پابندیوں اور مظاہروں کے بعد ملک کے لازمی ہیڈ سکارف قانون میں نرمی پیدا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
پزشکیان نے اپنی انتخابی مہم میں ایران کی شیعہ حکومت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ لانے کا وعدہ کیا تھا۔
حکام کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق انتخابات میں پزشکیان کو ایک کروڑ 63 لاکھ ووٹ جبکہ سعید جلیلی کو ایک کروڑ 35 لاکھ ووٹ ملے۔
دل کے سرجن اور قانون ساز پزشکیان کے حامی طلوع آفتاب سے قبل تہران اور دیگر شہروں کی سڑک پر نکل آئے اور ان کی کامیابی کا جشن منایا۔
28 جون کو ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ کی تاریخ میں سب سے کم ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔ ایرانی حکام نے طویل عرصے سے ملک کی شیعہ حکومت کی حمایت کی علامت کے طور پر ٹرن آؤٹ کی جانب اشارہ کیا تھا۔
ایران کی حکومت معیشت کو کچلنے والی برسوں کی پابندیوں، بڑے پیمانے پر مظاہروں اور تمام اختلاف رائے پر شدید کریک ڈاؤن کے بعد دباؤ کا شکار ہے۔
 سرکاری ٹیلی ویژن نے ملک بھر کے کچھ پولنگ مراکز پر معمولی قطاروں کی ویڈیوز نشر کیں۔
تاہم آن لائن ویڈیوز میں کچھ پولنگ سٹیشن کو خالی دیکھا گیا جبکہ دارالحکومت تہران میں کئی مقامات پر ہلکی ٹریفک اور سڑکوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد دیکھی گئی۔

28 جون کو ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں کم ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایران میں صدراتی انتخاب علاقائی کشیدگی میں اضافے کے دوران منعقد ہوئے۔ اپریل میں ایران نے غزہ میں جنگ کے سلسلے میں اسرائیل پر اپنا پہلا براہ راست حملہ کیا تھا جبکہ لبنانی حزب اللہ اور یمن کے حوثی باغی جیسے ملیشیا گروپس جنہیں تہران کی حمایت حاصل ہے، لڑائی میں مصروف ہیں اور حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
18 سال سے زیادہ عمر کے چھ کروڑ دس لاکھ سے زیادہ ایرانی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، جن میں سے تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔
ووٹنگ شام 6 بجے ختم ہونا تھی تاہم ٹرن آؤٹ کو زیادہ کرنے کے لیے اسے آدھی رات تک بڑھا دیا گیا۔
سابق صدر ابراہیم رئیسی جو مئی کے ایک ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جان سے گئے، کو خامنہ ای کے حامی اور سپریم لیڈر کے طور پر ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

شیئر: