Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کی عدالتی پسپائی کی وجہ کیا مسلم لیگ ن کی لیگل ٹیم ہے؟

عدالتی محاذ پر ناکامیوں کے بعد کئی مرتبہ اعظم نذیر تارڑ بھی تنقید کی زد میں رہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو اگر کہیں سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ اس ملک کی عدالتیں ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس کے علاوہ ن لیگ کی حکومت کو کسی دوسری سیاسی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے۔
جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 9 مئی کے 12 مقدمات میں بانی تحریک انصاف عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کو ختم کر دیا تھا۔
اس بڑے عدالتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ن لیگ کے حامی افراد نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ سمیت اس کیس کی پیروی کرنے والے وکلا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ یہ ٹیم اچھے طریقے سے عدالت میں وکالت نہیں کر سکی۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کی لیگل ٹیم تنقید کی زد میں ہے۔
اس سے پہلے بھی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں پی ڈی ایم کے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو کئی دفعہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ ’مصالحت‘ کے نام پر کئی مقدمات میں حکومت کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔
ان دنوں میں بھی کچھ لیگی حلقے وزیر وقانون اعظم نذیر تارڑ کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ مؤثر حکمت عملی نہیں ترتیب دے سکے جس کی وجہ سے نہ صرف تحریک انصاف واپس پارلیمنٹ میں آگئی بلکہ آئندہ بھی عدلیہ کی طرف سے مسلم لیگ ن کے لیے خیر کی خبر نہیں ہو گی۔

تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ اور ججوں کی ہے (فائل فوٹو: پی ایم ایل این)

تو کیا واقعی مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی لیگل ٹیم کی وجہ سے عدالتوں میں ’گھاٹے‘ کا سودا کر رہی ہے؟
اس  بات کا جواب پنجاب کے پرایسکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے دیا کہ ’ایسے لوگ جو تنقید کر رہے ہیں ان کے مقاصد کچھ اور ہو سکتے ہیں۔ میں نے اور میری ٹیم نے عدالت کے سامنے پورا کیس رکھا اور اس کیس میں کسی صورت ریمانڈ ختم نہیں ہو سکتا ہے۔‘
’اگر عدالت ہی بات نہ سنے تو وکیل اس میں کیا کر سکتا ہے؟ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ عدالتوں میں فیصلے کیسے ہو رہے ہیں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پراسیکیوشن کے کیس میں کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں تھی۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’ہر موقعے پر ہم نے عدالت کی رہنمائی کی اور بتایا کہ یہ ریمانڈ ختم کرنے کا کیس نہیں ہے۔ یہ تنقید بلاجواز ہے۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے، کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود بھی ان سے بات نہ ہو سکی۔
مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم پر تنقید کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ وہ اپنا کیس ٹھیک سے پیش نہیں کر رہے تاہم ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ عدالتیں سیاسی فیصلے دے رہی ہیں اس میں ٹیم کا قصور نہیں ہے۔

مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم پر تنقید کرنے والوں کا موقف ہے کہ وہ کیس ٹھیک سے پیش نہیں کر رہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’یہ دونوں باتیں ہی ٹھیک ہیں۔ بدقسمتی میں بہت کم وقت ایسا دیکھنے کو ملا ہے جب عدالتوں نے خالصتاً آئینی اور قانونی فیصلے کیے ہوں۔ ہر بڑے فیصلے سیاسی تناظر میں ہی کیے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دوسری طرف ن لیگ کی ٹیم نے بھی اپنی نااہلی ثابت کی ہے۔ ایک تیسرا فیکٹر بھی ہے اور وہ یہ کہ ججز اور اسٹیبلمشنٹ آمنے سامنے ہیں۔ ججوں کا غصہ ان کے فیصلوں میں نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی گرفت پچھلے کچھ عرصے میں کمزور ہوئی ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عدالتی فیصلوں میں سے سیاسی بو آ رہی ہے لیکن اس کے ساتھ جس طریقے سے عدالتوں کو ہانکنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ بھی جمہوری اقدار کے منافی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم کی کمزوریاں بھی نظر آ رہی ہیں لیکن اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ اور ججوں کی ہے۔‘

شیئر: