Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جان لیوا‘ امریکی کھلونا پاکستانی بچوں کی ’جان‘ کیسے بنا؟

ان دنوں آپ پاکستان کی کسی بھی گلی سے گزریں تو آپ کو بچے ایک خاص قسم کے ’ٹک ٹک‘ نامی کھلونے سے کھیلتے ہوئے ضرور دکھائی دیں گے۔
دھاگوں میں پِرو کر آپس میں باندھے گئے دو پلاسٹک کے گیند اچھالے جانے پر ’ٹک ٹک‘ کی آواز کرتے ہیں اور اپنی اس آواز سے ہی ان کا نام منسوب ہو چکا ہے۔
یہ کھلونا بظاہر سائنس کے انرجی، مومنٹم اور فریکشن جیسے بنیادی اصولوں کے تحت ہی بنا ہے جس میں آپس میں جڑے دو گیندوں کو خاص رفتار سے ہاتھ کی انگلی سے مسلسل اچھالا جاتا ہے کہ وہ آپس میں ٹکرانے لگتے ہیں اور ’سنکرونائزڈ‘ ہو کر ’ریدھم‘ بنا لیتے ہیں۔
ظاہر ہے جب کوئی چیز آپس میں ٹکرائے گی وہ شور بھی کرے گی مگر اس کھلونے کا مقصد شور کرنا نہیں بلکہ کامیابی سے اس طرح اچھالتے رہنا ہے کہ گیند یک رفتار ایک ہی انداز سے ٹکراتے رہیں اور ریدھم بنائے رکھیں۔ جوشخص اس عمل کو زیادہ دیر تک جاری رکھ پائے وہ کھیل جیت جاتا ہے۔
اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد نے سال کے آغاز میں کوئٹہ سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں انہوں نے’ٹک ٹک‘ کھلونے کی کوئٹہ میں یلغار اور اس سے تنگ آنے والے شہریوں کی روداد بیان کی تھی۔
اس رپورٹ کو نشر ہوئے لگ بھگ 6 ماہ ہو چکے ہیں مگر ’ٹک ٹک‘ کا ٹرینڈ پاکستان کے ہر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا ہے اور بچوں کے والدین اس شور کرتے کھلونے سے خاصہ پریشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مختلف چیزوں کے ٹرینڈ چل نکلتے ہیں خواہ وہ بڑوں کے استعمال میں آنے والی کوئی نئی ٹیکنالوجی ہو یا بچوں کے کھیلنے کے لیے کوئی منفرد کھلونا۔
اب چاہے بڑوں کو بچوں کے اکثر کھلونے ایک آنکھ نہ بھائیں مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’ٹک ٹک‘ کا جنون رکنے نہیں پا رہا۔
جہاں اس ’وائرل‘ کھلونے کا ذکر ہے وہیں اس سے جڑے کچھ حقائق اور تاریخی پہلو بھی قابل غور ہیں۔
پاکستان میں ’ٹک ٹک‘ کے نام سے مشہور اس کھلونے کو اصل میں ’کلیکر ٹوائے‘ کہا جاتا ہے اور کچھ ممالک میں اسے ’لاٹو لاٹو‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امریکی نیوز ویب سائٹ کوارٹز کے مطابق یہ ’کلیکر‘ ٹوائے کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہ 1960 کی دہائی میں امریکہ میں بنایا گیا تھا اور سنہ 1970 کے بعد یہ پوری دنیا میں مقبول ہوا۔


کلیکر ٹوائے 1960 کی دہائی میں امریکہ میں بنایا گیا تھا جو پوری دنیا میں کافی مقبول ہوا (فوٹو: سی این اے لائف سٹائل) 

سنہ 1970 کی دہائی کے اوائل تک سینکڑوں کھلونے بنانے والوں نے دنیا بھر میں لاکھوں کلیکر فروخت کیے۔ کلیکرز ڈیزائن میں ’بولیڈوراسسے ملتے جلتے تھے۔ بولیڈوراس ایک ہتھیار کا نام ہے جو گاؤچوس (ارجنٹینی کاؤبوائے) شکار کے لیے استعمال کرتے تھے۔


کلیکر کا ڈیزائن کاؤ بوائیز کے زیر استعمال ’بالوس‘ نامی ہتھیار سے مشابہت رکھتا ہے (فوٹو: نیشنل جیوگرافک)

عام طور پر اس کھلونے کو لکڑی یا دھات سے بنایا جاتا تھا مگر سخت ایکریلک پلاسٹ زیادہ مقبول ہوا۔  
ویب سائٹ کوارٹز میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ’کلیکرز کا پلاسٹک اکثر ٹکرانے پر ٹوٹ جاتا تھا اور اس کے تیز ٹوٹے ہوئے ٹکرے بچوں کے لیے خطرے کا باعث بننے لگے تھے۔
سنہ1960 سے 1970 کے دوران امریکہ میں کھلونوں کی حفاظت کو منظم کرنا اصل میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کا کام تھا۔ واضح طور پر کلیکرز نہ تو کوئی خوراک تھی اور نہ ہی کوئی دوا لیکن ایف ڈی اے کے پاس 1966 کے ایک ایکٹ کے ذریعے لوگوں کو غلط احمقانہ چیزوں کے ساتھ کھیلنے سے بچانے کا اختیار تھا۔
بعد ازاں ان اختیارات کو ’چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ٹوائے سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت وسیع کر دیا گیا اور خطرناک سمجھے جانے والے کھلونوں کی فروخت پر پابندی لگنا شروع ہوئی۔ ان ہی کھلونوں میں کلیکر بھی شامل تھا۔
نیوز ویب سائٹ ’سی این اے لائف سٹائل‘ کے مطابق سنہ 1974 میں امریکہ کی مارشل سروس نے کلیکرز کی تقریباً 50 ہزار کی کھیپ ضبط کی تھی۔ اس کے جواب میں ’ایس نوولٹی‘ نامی کمپنی نے عدالت میں ایک شکایت درج کرائی جس میں کہا گیا تھا کہ فیڈرل ہیزرڈس سبسٹنس ایکٹ (FHSA) کے تحت کلیکرز انسانی جان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔
اس اپیل پر عدالت نے فیصلہ سنایا کہ امریکی ریاست کو FHSA کے تحت کھیپ ضبط کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ کلیکر ایک مکینیکل خطرہ ہے اور بچوں کو زخمی کر سکتے ہے۔


امریکہ میں بننے والا کھلونا جنوب مشرقی ایشیا میں کافی مقبول ہو چکا ہے  (فوٹو: Instagram/thespaceboyvintage)

کلیکرز کو خطرہ قرار دیے جانے کے بعد یہ کھلونا امریکی مارکیٹ سے وقتی طور پر غائب تو ہو گیا لیکن مکمل طور پر ختم نا ہوسکا جس کا ثبوت ہمیں پاکستان کی گلیوں میں بھی اس سے کھیلتے بچوں کی صورت میں مل سکتا ہے۔
واضح رہے حال ہی میں جو کلیکر کھلونے مارکیٹ میں بک رہے ہیں وہ پرانے جان لیوا قرار دیے جانے والے کلیکرز سے کچھ حد تک مختلف ہیں، ان میں پلاسٹک کی جدید قسم استعمال ہوتی ہے جس کے ٹوٹنے کا خدشہ بھی کم ہے، مگر ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں یہ بچوں اور پاس موجود افراد کو نقصان ضرور پہنچا سکتا ہے۔ 

شیئر: