احتجاج کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر زور دے رہے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدے پر دستخط کریں۔
دوسری جانب یرغمالیوں کے اہل خانہ، اپوزیشن لیڈر اور اسرائیل کی ٹریڈ یونین ’ہستادروت‘ نے پیر کو عام ہڑتال کی کال دے دی ہے۔
اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے بھی عوام سے عام ہڑتال میں شریک ہونے کی اپیل کی ہے تاکہ اسرائیلی حکومت پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔
واضح رہے کہ آج بھی اسرائیل میں مغویوں کی رہائی کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اُدھر لیبر فیڈریشن کے چیئرمین آرنن بر ڈیوڈ نے تل ابیب میں واقع اپنی تنظیم کے ہیڈکوارٹر میں اسرائیل کے مقامی وقت کے مطابق ان مغویوں کے خاندان والوں سے چار بجے ملاقات کی اور ہڑتال میں اپنی یونین کی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
مغوی بنائے جانے والے افراد کی رہائی کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے عوام سے درخواست کرنے کے بعد اسرائیل کی طاقتور سمجھے جانے والی یونین سے اس احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل کی تھی۔
دوسری طرف اسرائیل کے وزیر دفاع یاہو گیلنٹ نے اپنے وزیراعظم نیتن یاہو سے مغویوں کی رہائی کے لیے معاہدے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے اور اس دوران بے دردی سے مغویوں کا قتل بھی ہوا ہے۔‘
وزیر دفاع نے کہا کہ ’وہ مغوی جو ابھی بھی حراست میں ہیں انہیں ہر صورت واپس گھر لانا چاہیے۔‘
پیر کو ہڑتال کے دن لاکھوں اسرائیلیوں کے احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا امکان ہے۔ بہت سے اسرائیلی 11 ماہ سے جاری جنگ کے دوران سیز فائز معاہدے میں ناکامی کا ذمہ دار نیتن یاہو کو ٹھہرا رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کئی ماہ سے جاری ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی میں حائل مشکلات کو تسلیم کیا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں یرغمالیوں کی واپسی کا واحد راستہ حماس کے ساتھ معاہدہ ہی ہے۔
یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین میں سے ایک اموس کا کہنا تھا کہ ’میں انسانیت کے لیے آواز بلند کر رہا ہوں۔‘
فوج کا کہنا ہے کہ جن چھ یرغمالیوں کی لاشیں برآمد ہوئی ان کو فوج کے پہنچنے سے پہلے ’قتل‘ کر دیا گیا تھا۔
نیتن یاہو نے جنگ بندی معاہدے میں تاخیر کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’جو یرغمالیوں کو مارتے ہیں وہیں معاہدہ نہیں چاہتے ہیں۔‘
حماس نے یرغمالیوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی، اسرائیلی فوجیوں کے انخلا اور فسلطینی قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے تو تمام یرغمالی رہا کر دیے جائیں گے۔
حماس کے عہدیدار عزت الرشق کا کہنا ہے کہ چھ یرغمالی آج بھی زندہ ہوتے اگر اسرائیل امریکہ کا مجوزہ جنگ بندی معاہدہ منظور کر لیتا جسے حماس نے قبول کر لیا تھا۔
ادھر اسرائیل میں یرغمالیوں کی تدفین شروع ہو گئی ہے جس کے ساتھ ہی ملک میں غم و غصے کی لہر میں تیزی آئی ہے۔
یرغمالیوں میں سے ایک سروسی کی لاش کو اسرائیل کے جنھڈے میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔
سروسی کی ماں کا کہنا تھا کہ ’آپ کو مسلسل فراموش کیا گیا، روزانہ، ہر گھنٹے بعد یہاں تک کہ 331 دن۔ آپ کو اور بہت ساری معصوم جانوں کو فراموش کیا گیا لیکن اب بہت ہوگیا مزید نہیں۔‘
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حماس کو تباہ کرنے تک غزہ جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یرغمالیوں پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد نیتن یاہو حکومت کی سات اکتوبر کے حملے روکنے میں ناکامی کی تحقیقات ہوگی جس کے ساتھ ہی ان کی حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کا امکان ہے۔
چتھمن ہاؤس میں انٹرنیشنل سکیورٹی پروگرام کے فیلو نومی بار کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے یہ ایک زلزلہ ہے۔ یہ جنگ میں محض اگلا قدم نہیں۔‘
اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے دوران نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع ایک دوسرے پر چیخ پڑے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یاہو گیلنٹ نے اجلاس کے دوران نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ انہوں نے یرغمالیوں کی رہائی کو ترجیح دینے کے بجائے مصر اور غزہ کے ساتھ سرحدی کوریڈور کے کنٹرول کو ترجیح دی۔
اسرائیل کے ایک حکومتی عہدیدار نے چینل 12 کے رپورٹ کی تصدیق کی اور کہا کہ چھ میں سے تین ہلاک ہونے والے یرغمالی جولائی میں طے پانے والے مجوزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا ہوئے تھے۔
یاہو گیلنٹ نے اتوار کو کہا کہ ’اسرائیل کی ریاست کے نام پر میں یرغمالیوں کے خاندانوں کو اپنے دل کے قریب سمجھتا ہوں اور اس سے معافی کا طلب گار ہوں۔‘