Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دکاندار کا موبائل فون واپس لینے سے انکار؟، کنزیومر پروٹیکشن کونسلز مدد کیسے کر سکتی ہیں؟

صارفین دکاندار کے خلاف کنزیومر پروٹیکشن کونسل میں شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
راولپنڈی کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن کے رہائشی وقاص احمد نے ایک قریبی مارکیٹ سے استعمال شدہ قیمتی موبائل فون خریدا، تاہم چند دن ہی استعمال کیا تھا کہ یہ بند ہو گیا اور اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
وہ جب دوبارہ اسی دکان پر موبائل کے بند ہو جانے کی شکایت لے کر گئے تو دکاندار نے یہ کہہ کر موبائل کی واپسی یا مسئلے کے حل سے انکار کر دیا کہ ‘آپ کی تسلی کے بعد ہی آپ کو یہ موبائل فون دیا گیا تھا۔‘
محمد وقاص نے نے تقریباً دو ماہ قبل اپنی جمع پونجی خرچ کر کے ایک اور قیمتی موبائل فون خریدنے کا فیصلہ کیا اور قریبی موبائل مارکیٹ کا رخ کیا اور ایک بہتر موبائل فون تلاش کرنا شروع کیا۔
اُنہیں بظاہر ایک اعلیٰ معیار کا موبائل فون مل گیا۔ دُکاندار کی جانب سے موبائل فون کے پی ٹی اے سے تصدیق شدہ ہونے اور اچھے معیار کی بھی گارنٹی دی گئی جس کے بعد انہوں نے موبائل فون خرید لیا۔
محمد وقاص کی خوشی اُس وقت ماند پڑھ گئی جب چند روز گزرنے کے بعد موبائل نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ بند ہو گیا۔ اُنہوں نے جب معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ یہ موبائل فون پی ٹی اے سے تصدیق شدہ نہیں تھا۔ تاہم  دکاندار نے موبائل فون واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
محمد وقاص نے اس وقت راولپنڈی کی کنزیومر پروٹیکشن کونسل میں اُس دکاندار کے خلاف شکایت کا اندراج کروایا۔
کونسل نے شہری کی درخواست پر متعلقہ دکاندار کو نوٹس بھیجا اور یوں دکاندار نے 15 دن کے اندر شہری کو پیسے واپس لوٹا دیے۔
 مارکیٹ سے خریدی گئی کوئی چیز اگر معیاری یا بتائی گئی خصوصیات پر پوری نہ اُترے یا کسی کمپنی کی لی گئی سروسز اُس کے بتائے گئے معیار کے مطابق نہ ہوں تو آپ بھی بطور صارف کنزیومر پروٹیکشن کونسل سے رجوع کر سکتے ہیں۔
 پنجاب کے 17 اضلاع میں قائم یومر پروٹیکشن کونسلز اور عدالتیں صارفین کے حقوق کے لیے ایسے مختلف کیسز پر ایکشن لیتی ہیں جن میں دُکاندار، شاپنگ سینٹر یا کسی کمپنی نے غیرمعیاری اور بتائی گئی خصوصیات کے مطابق اشیا فروخت نہ کی ہو۔
 اعداد و شمار کے مطابق راولپنڈی میں حالیہ عرصے کے دوران شہریوں کی جانب سے کنزیومر پروٹیکشن کونسل میں شکایت کے اندراج کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رواں سال جولائی تک کنزیومر پروٹیکشن کونسل میں 110 نئے کیسز فائل ہوئے جبکہ اسی عرصہ کے دوران آٹھ لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سال 2007 سے دو ادارے یعنی کنزیومر پروٹیکشن کونسل اور کنزیومر کورٹ کام کر رہے ہیں (فوٹو: پکسابے)

کنزیومر پروٹیکشن کونسل سے کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے؟
کنزیومر پروٹیکشن کونسل سے رجوع کرنے کا طریقۂ کار جاننے کے لیے جب کنزیومر پروٹیکشن کونسل راولپنڈی کے فوکل پرسن ادریس رندھاوا سے رابطہ کیا گیا تو اٗنہوں نے بتایا کہ پنجاب بھر کے 17 اضلاع میں ایسی شکایات درج کروائی جا سکتی ہیں۔
 شہری اپنی متعلقہ کنزیومر پروٹیکشن کونسل میں درخواست جمع کروا سکتے ہیں جس میں خریدی یا استعمال کی گئی مصنوعات یا سروسز کی رسید وغیرہ کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا ہے۔
 کنزیومر پروٹیکشن کونسل میں درخواست جمع کروانے کے بعد فوری طور پر متعلقہ کمپنی یا دُکاندار کو نوٹس بھیجا جاتا ہے۔ وہ اگر 15 روز کے اندر معاملے کو حل کرنے کے لیے رضامند نہ ہو تو پھر متعلقہ کیس کنزیومر کورٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔
صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سال 2007 سے دو ادارے یعنی کنزیومر پروٹیکشن کونسل اور کنزیومر کورٹ کام کر رہے ہیں جو باہمی اشتراک سے صارفین کی شکایات کا ازالہ کرتے ہیں۔
کنزیومر کورٹس میں عام عدالتوں کے برعکس کیس کا فیصلہ قلیل مدت میں کیا جاتا ہے۔
عمران رندھاوا کا کہنا تھا کہ ’صوبہ پنجاب میں قائم صارف عدالتیں چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ سنانے کی پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن عدالتوں پر شہریوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔‘
کیا شہریوں سے کوئی فیس وصول کی جاتی ہے؟
کنزیومر پروٹیکشن کونسل تک عام آدمی کی رسائی ممکن بنانے کے لیے کسی قسم کی فیس وصول نہیں کی جاتی۔
عمران رندھاوا نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب کے 17 اضلاع میں قائم کنزیومر پروٹیکشن کونسلز بلامعاوضہ صارف کی شکایات سنتی ہیں اور اُس کا حل بھی فراہم کرتی ہیں۔‘

صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی میں ملوث کمپنیوں اور عام دُکانداروں پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کنزیومر کورٹس میں کیس بھیجے جانے کی صورت میں وکیل کی خدمات لینے کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ’شکایت کنندگان کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ ذمہ داری کنزیومر پروٹیکشن کونسل کی ہے کہ وہ متعلقہ عدالت میں صارف کا مقدمہ لڑے۔‘
راولپنڈی کنزیومر پروٹیکشن کونسل میں رواں برس زیرسماعت کیسز 
 فوکل پرسن کے مطابق کنزیومر پروٹیکشن کونسل راولپنڈی میں رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 110 درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ اسی عرصے میں 129 شکایات کا ازالہ کیا گیا جبکہ 17 کیسز کنزیومر کورٹ کو بھیجے گئے۔
کونسل کی جانب سے صارفین کی شکایات پر عائد جرمانے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جنوری 2024 سے جولائی 2024 تک آٹھ لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
اُردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق کنزیومر کورٹس کے قیام یعنی 2007 سے لے کر 2024 تک مجموعی طور پر 3444 کیسز فائل کیے گئے جن میں سے 3435 کیسز کو حل کیا جا چکا ہے۔ 275 ایسے کیسز تھے جنہیں کنزیومر کورٹ کے سپرد کیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کنزیومر کورٹس میں زیر التوا کیسز کی تعداد صرف 9 ہے۔
کنزیومر پروٹیکشن کونسل کی جانب سے عائد کیے گئے جرمانے
صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی میں ملوث کمپنیوں اور عام دُکانداروں پر کنزیومر پروٹیکشن کونسل اور متعلقہ کورٹس کی جانب سے سال 2007 سے 2024 تک 59 لاکھ 58 ہزار 400 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

شیئر: