سابق فٹبالر کا کہنا ہے ’رزق کے دروازے تمام شعبوں میں کھلے ہیں اور مقامی باشندوں کو اپنے پیشے پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
الزہرانی نے بتایا ’چھوٹی عمر سے ہی مطالعہ کے ساتھ کچھ ہنر سیکھنے کی خواہش تھی، ہائی سکول کی تعلیم کے بعد کم آمدنی والے پرائیویٹ سیکٹر میں سیکیورٹی اہلکار کے فرائض بھی انجام دیئے۔‘
جدہ کے ریلیکس سٹیشن سیلون میں سرجیکل دستانے پہنے اپنے آخری گاہک کے بال کاٹتے کے چند منٹ وقفے کے بعد انہوں نے کہا ‘وہ اس بات سے متفق نہیں کہ مقامی باشندوں کو مخصوص ملازمتوں پر ہی کام کرنا چاہئے۔‘
ہمیں سعودی وژن 2030 کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے خیالات کو تبدیل کرنا ضروری ہے اپنے ہنر کو ہر شعبے میں اپنانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
معاشرہ میں صرف انجینئر، ڈاکٹر اور پائلٹ ہی درکار نہیں تمام شعبے میں ماہر کاریگروں کی ضرورت ہے، میں اپنے پیشے سے مطمئن ہوں۔
مقامی باشندوں کو اپنے پیشے پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘ فوٹو عرب نیوز
ہیئر سٹائل کٹر بننے سے پہلے الزہرانی بہترین فٹبالر تھے، وہ مکہ مکرمہ اور الربیع میں الوحدہ فٹبال کلب کے لیے کھیلتے تھے۔
انہوں نے بتایا ’فٹ بال میرا جنون تھا اور مستقبل میں فٹ بال کا معروف کھلاڑی بننے کی امید رکھتا تھا لیکن بدقسمتی سے سخت قسم کی انجری کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث فٹبال کھیلنا میرے لئے خواب ہو گیا۔
اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنے اور کیریئر میں کسی اور شعبے کی تلاش کے دوران انہوں نے ایک پرائیویٹ ادارے میں ہیئر سٹائلنگ کورس میں داخلہ لیا۔
ہیئرسٹائلر بننے سے پہلے الزہرانی الوحدہ فٹبال کلب سے کھیلتے تھے۔ فوٹو عرب نیوز
انہوں نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب ایک اشتہار میں مقامی نوجوانوں کو ہیئر سٹائلر بننے کی جانب توجہ دلائی گئی جب کہ میں فٹبال کے کھیل کے دوران اپنے بالوں کے بارے میں فکرمند رہتا تھا۔
الزہرانی نے فیصلہ کیا کہ یہ ہنر سیکھنا ہے اور اس کی انہیں ضرورت بھی ہے جس کے بعد انہوں نے سٹائلش بال کاٹنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے ایک سال کی تربیت حاصل کی۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں