Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انجینئرنگ کے شعبے میں سعودائزیشن سے مقامی ٹینلٹ میں اضافہ ہو گا

مملکت میں 448,528 انجینئرز، ٹیکنیشنز اور ماہرین کام کر رہے ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
سعودی عرب کے وژن 2030 کے تحت بلند و بالا فلک بوس عمارتوں، انفراسٹرکچر اور گیگا پروجیکٹس کے پیچھے انتہائی ہنرمند انجینئرز کی بڑی تعداد کھڑی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق وزارت انسانی وسائل و سماجی ترقی نے سعودی شہریوں کو ملازمت کے پرکشش مواقع فراہم کے لیے گزشتہ ماہ انجینئرنگ کے پیشوں میں مقامی افراد کے لیے 25 فیصد کوٹے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب میں انجینئرنگ کے شعبے میں بہت سی ملازمتیں تارکین وطن کے پاس ہیں جو آبائی ممالک سے تکنیکی علم، مہارت اور انجینئرنگ کے منصوبوں کے تجربے کی بنیاد پر مملکت میں موجود ہیں۔
مملکت میں سعودائزیشن کی پالیسی کا اطلاق نجی شعبے کی کمپنیوں پر ہے جو پانچ یا اس سے زیادہ انجینئرز کو ملازمت دیتی ہیں۔
اس نئے اقدام سے مملکت کے نجی شعبے کے لئے معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
سعودی کونسل آف انجینئرز کے مطابق اس وقت مملکت میں چار لاکھ 48 ہزار 528 انجینیئرز، ٹیکنیشنز اور ماہرین کام کر رہے ہیں جن میں سعودیوں کی تعداد 34.17 فیصد ہے۔
ملازمتوں کی تعداد اور سعودی شہریوں کے پاس ان کا تناسب بڑھنے کا امکان ہے، جس میں انجینیئرنگ کے تعداد 8000 اور دیگر تکنیکی شعبوں میں 8000 پوزیشنیں بڑھانا ہے۔

انجینئرنگ کے شعبے میں بہت سی ملازمتیں تارکین وطن کے پاس ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

میکسیمیلیانو ڈویلپمنٹ مینجمنٹ سروسز کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور بانی مروہ مراد کا خیال ہے کہ مملکت متعدد حکمت عملیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے معاشی استحکام اور ترقی کو برقرار رکھتے ہوئے  تکنیکی افرادی قوت میں سعودائزیشن کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
مروہ مراد نے بتایا ہے ’انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی کے شعبوں کی مخصوص ضروریات کے مطابق سعودی عرب میں جامع تربیتی اور ترقیاتی پروگراموں کا قیام انتہائی ضروری تھا۔
یونیورسٹیوں کے ساتھ پیشہ ورانہ تربیت اور اعلیٰ تعلیم کی شراکت میں سرمایہ کاری کر  کے حکومت مقامی شہریوں کو انجینیئرنگ کے شعبے میں مہارت اور علم سے آراستہ کر رہی ہے۔
تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کی کمپنیوں کے درمیان شراکت کی حوصلہ افزائی ایک ایسی حکمت عملی ہے جو عملی تربیت میں طلبہ کے لیے انٹرن شپ کے مواقع بڑھاتی ہے۔
مروہ مراد نے مزید کہا تعلیمی اداروں اور نجی شعبے میں تعاون اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ فریش گریجویٹ نوکری کے لیے تیار ہیں اور انجینیئرنگ کے شعبے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔

خلیجی ممالک نے تربیتی پروگرام مؤثر طریقے سے نافذ کیا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

ریکروٹمنٹ ایجنسی جی آر جی کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور پارٹنر علی ناصر کا خیال ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبوں میں سرمایہ کاری سعودائزیشن کو فروغ دینے کا ایک مستحکم اور موثر طریقہ ہے۔
علی ناصر نے بتایا ’اعلیٰ درجے کے تعلیمی پروگراموں میں سب سے اہم سرمایہ کاری، نوجوانوں کے لیے سکالرشپ اور مالی مدد، رہنمائی اور انٹرن شپ کے مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔
علی ناصر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی سیکٹر میں انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینا ضروری ہے جس کے نتیجے میں پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ ملے گا اور مقامی انجینیئرز کے لیے ملازمت کے دروازے کھلیں گے۔
مروہ مراد کا کہنا ہے’ تعلیمی شراکت داری کے ساتھ ساتھ سعودی انجینیئرنگ کے شعبے میں خواتین کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

فلک بوس عمارتوں اور گیگا پروجیکٹس کے پیچھے ہنرمند انجینئرز کھڑے ہیں۔ فوٹو واس

انجینیئرنگ کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینے سے ٹیلنٹ پول کو نمایاں وسعت اور افرادی قوت میں خواتین کی شرکت بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اس وقت خواتین سعودی انجینئرز اور ٹیکنیشنز کی کل تعداد کا صرف 3.19 فیصد ہیں جبکہ باقی 96.81 فیصد مرد حضرات اس سے منسلک ہیں۔
اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے اپریل میں ایک نئے اقدام کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد خواتین سعودی انجینیئرز کو ریاض ایئرپورٹ پر ایوی ایشن آسٹریلیا اور انٹرنیشنل ایوی ایشن ٹیکنیکل کالج کی نگرانی میں تربیت فراہم کرکے خواتین کی تعداد بڑھانا ہے۔
اگست میں قومی فضائی کمپنی، ریاض ایئر اور کالجز آف ایکسی لینس کے مابین معاہدے کے بعد سعودی عرب میں ووکیشنل ٹریننگ کارپوریشن نے مقامی ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے کے لیے ایک شعبہ قائم کیا ہے۔

خواتین سعودی انجینئرز اور ٹیکنیشنز کی کل تعداد کا 3.19 فیصد ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

مختلف خلیجی ممالک میں لوکلائزیشن کوٹے کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک میں یہ پالیسی نافذ کرنے سے انجینئرنگ کے شعبے میں کامیابی کے ساتھ مقامی ٹیلنٹ کا اضافہ ہوا ہے۔
خلیجی ممالک نے نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام اور تعلیمی اصلاحات کے ذریعے لوکلائزیشن کو فروغ دینے کے اقدامات کو مثر طریقے سے نافذ کیا ہے۔
اس اقدام سے مختلف صنعتوں میں ہنر مند مقامی پیشہ ور افراد کی موجودگی بڑھ رہی ہے جو روایتی طور پر غیر ملکی کارکنوں پر انحصار کرتے تھے۔
 

شیئر: